گل ارباب ایک منفرد اسلوب رکھتیں هیں الف کتاب سمیت دیگر پلیٹ فارم پر لکھ رہیں هیں۔قلم کتاب انٹرویو کے لیے ان کا ته دل سے مشکور هے۔
1_ اپنا تعارف کروا دیں ( تعلیم ، پیشہ ، کامیابیاں ، شوق).
جواب = میرا نام فوزیہ آمنہ ارباب ہے میرا تعلق خیبر پختونخوا پشاور سے ہے ۔۔پڑھائی کا بہت شوق تھا لیکن جیسا کہ ہمارے ہاں عموما ہوتا ہے میٹرک کے فورا بعد شادی ہو گئی اس لئے پڑھنے کے حوالے سے سارے خواب ادھورے رہ جاتے ۔۔اگر میں ہمت ہار دیتی لیکن ۔۔۔میں نے مشکل ترین حالات میں بھی پرائیویٹ پڑھائی جاری رکھی ۔۔ اور الحمدللہ علم حاصل کر نے کی خواہش کو حسرت نہ بننے دیا ۔لیکن پھر بھی اپنے والدین سے مجھے آج بھی یہی گلہ ہے کہ انہوں نے میری شوق کو اپنے فرض پر قربان کردیا تھا ۔۔
۔۔۔کامیابیاں الحمدللہ بے شمار ہیں کئی مقابلوں میں جیتنا جن میں الف کتاب جو عمیرہ احمد کا ادارہ ہے کہ دو ناولز مقابلوں میں ٹاپ چھ میں آنا بھی ہے ان مقابلوں میں ملک کی تقریبا سبھی بڑی لکھاری خواتین و مرد حضرات نے حصہ لیا تھا اور سو سے زیادہ ناولز میں ٹاپ چھ کے بعد عمیرہ احمد ایک ایونٹ میں ٹاپ تھری کا اعلان کریں گی ۔۔۔ ہو سکتا ہے بلکہ پوری امید ہے کہ ان شاءاللہ تعالیٰ پہلی تین پوزیشنز میں سے کوئی میرے نام بھی ہو سکتی ہے ۔۔الحمداللہ ڈایجسٹ کی دنیا میں بھی اللہ نے کامیابی عطا فرمائی اور پاکستان کے تقریبآ سبھی مشہور ڈائجسٹس میں لکھ رہی ہوں ۔۔۔ ان لائین رائٹنگ میں بھی میرے دو ناولز کتاب گھر اور سوہنی ڈائجسٹ پر پبلش ہوئے ہیں
کئی افسانوی مقابلوں میں جیت چکی ہوں حال ہی میں ہونے والے ایک افسانوی مقابلہ ایونٹ میں ساٹھ افسانوں میں سے پہلا انعام حاصل کیا ایک اور عالمی افسانوں کے مقابلے میں دنیا بھر سے بڑے افسانہ نگاروں نے حصہ لیا جس میں پچاسی افسانوں میں سے میرا افسانہ چوتھے نمبر پر رہا ۔
کس عمر میں لکھنا شروع کیا اور کیسے ؟
جواب = شاید 12 سال کی عمر میں پہلی کہانی لکھی تھی ۔۔یہ وہ عمر ہوتی ہے جب بچپن ہاتھ چھڑا رہا ہوتا ہے اور جوانی ہاتھ بڑھا رہی ہوتی ہے ۔۔سو بچپن اور جوانی کے سنگم پر مجھے لکھنے کا خیال آیا ۔اور پھر تو یہ سلسلہ چل ہی نکلا ۔۔
پہلے پہل تو سہلیوں کو ہی یہ نظمیں کہانیاں لکھ کر پڑھنے کے لیے دیتی تھی پھر رسائل میں بھی بھیجیں اور کچھ مقامی اخبارات میں بچوں کے صفحات میں چھپتی بھی رہیں ۔
پھر بڑوں والی شاعری شروع کی نظم میں زیادہ پابندی نہیں اس لیے نظم میری پسندیدہ صنف ہے ۔کچھ سال کے وقفے کے بعد افسانہ نگاری شروع کی تو یہ سلسلہ بھی چل نکلا اب تک دس ناولز بہت سے ناولٹ بے شمار افسانے اور مایکروف لکھ چکی ہوں فیس بک پر بہت سے ادبی فورمز پر تنقید کے لیے افسانے لگ چکے ہیں ۔
صف اول کے ڈایجسٹس و ادبی جرائد میں بھی افسانے مکمل ناولز اور ناولٹ پبلش ہو چکے ہیں ۔طویل بھی لکھا ہے اور محتصر بھی جبکہ پاپولر فکشن اور ادبی اسلوب دونوں میری پہچان ہیں
مجھے مزاح نگاری بھی بہت پسند ہے اور ہلکے پھلکے فکاہیہ مضامین بھی لکھ چکی ہوں ڈرامہ لکھنے کا بہت شوق ہے جو ان شاءاللہ تعالیٰ جلد ہی پورا ہونے کا قوی امکان ہے ۔
ادب کی کن شخصیات کے کام سے آپ متاثر ہوئے اور کس کو پڑھا؟
جواب = بچوں کی کہانیوں سے ابتدا ہوئی پڑھنے کی پھر ابن صفی کے عمران سیریز کا جادو سر چڑھ کر بولا ۔۔۔وہ ایک نشہ تھا دیوانگی تھی ۔
میرے ابو جی حکایت ٬ اردو ڈائجسٹ اور سیارہ ڈائجسٹ منگواتے تھے ہمیں ڈائجسٹ کو ہاتھ لگانے کی اجازت نہیں تھی لیکن میں اور میرا بھائی چھپ کر ڈائجسٹ پڑھنے لگے۔۔لیکن ان ڈائجسٹ سے واقف لوگوں کو اچھی طرح سے معلوم ہے کہ زیادہ تر ان ڈائجسٹس میں سیاسی معاشرتی مسائل کا ذکر فیچرز وغیرہ کے ذریعے ہوتا تھا مجھے ان ڈائجسٹ میں عالمی ادب کے تراجم پڑھنا اچھا لگتا تھا ۔۔یوں ابتدا ہی موپاساں ٫ گورکی ٫ لیو ٹالسٹائی اور چیخوف سے ہوئی ۔۔۔اس وقت عالمی ادب میں ان کے مقام سے مجھے کوئی خاص واقفیت نہ تھی لیکن کہانیاں اچھی لگتی تھیں ۔
پھر ابن انشا کی اردو کی پہلی کتاب ہاتھ لگی ۔۔چلتے ہو تو چین کو چلیے اور ان کی دیگر کتب ۔۔۔ان ہی دنوں مستنصر حسین تارڑ سے نکلے تیری تلاش میں۔۔ کے ذریعے پہلا تعارف ہوا ۔۔ اب ادھر ادھر سے سہیلیوں کی ماؤں کے ڈائجسٹ ما نگ کر پڑھنے لگی اور خواتین کے ڈایجسٹ میں ۔۔اقبال بانو ٬ لبنی غزل ٬ ناہید سلطانہ اختر٬ رفعت سراج ٬ فارحہ ارشد ٬ انجم انصار عنیزہ سید ٬ اور ان ہی جیسے ڈائجسٹ کے کئی بڑے ناموں نے بہت متاثر کیا ۔۔۔ کبھی کبھی گھر میں سسپینس ڈائجسٹ بھی آتا تھا جس کے آخری صفحات میں بہت اعلی پاۓ کی کہانیاں پڑھنے کا موقع ملا ۔۔۔محی الدین نواب علیم الحق حقی الیاس سیتاپوری پوری اور کئی دیگر بڑے لکھاریوں سے انہیں آخری صفحات کی کہانیوں کے ذریعے متعارف ہوئی ۔
آپکے خیال میں ایک لکھاری کی تعریف کیا ہے وہ کیا عناصر ہیں جو اُسے باقی انسانوں سے الگ کرتے ہیں ؟
جواب = میرے خیال میں لکھاری کی تعریف یہ ہے کہ وہ سوچ بدل سکتا ہے وہ لفظ کو ہتھیار بنا کر فرسودہ روایات و رسومات کے خلاف لڑ سکتا ہے ظلم کو ظلم لکھتا ہی نہیں ظلم کے خلاف اٹھ کھڑے ہونے کی تحریک بھی احساس سے عاری معاشرے میں پیدا کرتا ہے ۔۔ صرف اپنے لیے نہیں اپنے جیسوں کے لیے بھی سوچتا ہے ہاتھ پر ہاتھ دھرے آسمان کی طرف نہیں دیکھتا بلکہ آسمان والے کی دی ہوئی طاقت کو استعمال بھی کرتا ہے ۔۔۔ اسے اپنے اشرف مخلوق ہونے پر صرف فخر ہی نہیں ہوتا وہ اپنے اشرف مخلوق ہونے کا حق بھی ادا کرتا ہے اس اعزاز کو سینے سے لگا کر آنکھیں بند نہیں کرتا بلکہ خود کو اس کا اھل بھی ثابت کرتا ہے ۔۔۔
وہ عناصرِ جو اسے باقی انسانوں سے الگ کرتے ہیں یہ ہیں ۔۔۔ کئی لوگ ہٹ کر سوچتے ہیں اور گہرائی سے محسوس بھی کرتے ہیں لیکن وہ اپنی سوچ کو الفاظ کا جامہ نہیں پہنا سکتے تو لکھاری سب سے الگ اس لحاظ سے کہ اسے قدرت نے یہ ہنر ودیعت کیا ہوتا ہے کہ وہ سوچ اور احساس کو لفظوں میں ڈھال سکتا ہے ۔۔
وہ کونسے موضوعات ہیں جن پر آپ لکھ چکے ہیں اور کن پر لکھنے کا ارادہ رکھتے ہیں ؟
میں موضوعات میں جدت کی قائل ہوں اور الحمدللہ کہ ایسے ایسے موضوعات پر بھی لکھا کہ جنہیں لوگ قبول نہیں کرتے یا اس موضوع کو موضوع ہی نہیں سمجھتے لیکن میں نے تھیلی سیمیا سے لے کر ماحولیاتی آلودگی تک پر بھی لکھا ہے تانیثی ادب حصوصا میرا موضوع ہوتا ہے لیکن اساطیری ادب بھی پسند ہے ۔ محبت پر لکھنا مجھے زیادہ آسان لگتا ہے کیونکہ محبت ہی میرا اوڑھنا بچھونا ہے ۔
آپکو کیا لگتا ہے کہ ایک لکھاری کا معاشرے میں کیا کردار ہونا چاہیے؟
جواب = جو ایک انسان کا ہے اس سے ذرا آگے تک ۔۔میں ادب یا پاپولر فکشن میں پڑھتی ہوں تو افسانے کہانیاں مجھے مسائل پر لکھے ملتے ہیں لیکن ان مسائل کا ایک حل بھی تو دینا چاہیے سالہا سال سے ہم انہیں مسائل کا شکار ہیں اب ان سے چھٹکارے کا طریقہ بھی ڈھونڈنے کی ضرورت ہے معاشرے کی سوچ اسی طرح بدلی جا سکتی ہے ہمیں وہ نہیں لکھنا جو لوگ پڑھنا چاہتے ہیں بلکہ ہمیں وہ سب لکھنا ہے جو لوگوں کی زندگیوں کو بدل دے مایوسیوں کے اندھیرے چھٹ جائیں اور نئی صبحوں کے اجالے نئی امیدیں لے کر آئیں ۔
اپنے لکھے کسی ایک کردار کا تعارف کروائیں جو آپکے دل کے بہت قریب ہے اور کیوں؟۔
جواب = میرے سب کرداروں میں مکمل نہ سہی لیکن بہت سوں میں گل ارباب خود ۔موجود ہے اور اس کا تعارف یہاں کرا رہی ہوں
آپ خود کو بحثیت ایک لکھاری اگلے 5 تک کہاں دیکھتے ہیں؟
جواب = ان شاءاللہ تعالیٰ بہت آگے ۔۔بہت سے خوابوں کی تعبیریں تقدیر کا ہاتھ تھامے دعاؤں کی سنگت میں حقیقت میں ڈھلنے کے لیے خوشیوں کے کامیابیوں کے دروازے دستک دے رہی ہیں اب مقدر کا ستارا چمکے گا ان شاءاللہ تعالیٰ دروازے کھل رہے ہیں اور میرا طلسم کھل جا سم سم نہیں ہے بلکہ ” اے اللہ تیرا بے حد شکر ہے “ یہ ہی میرا طلسمی کلمہ ہے اور یہ ہی تو میرا اسم اعظم بھی ہے
ادب کے میدان میں جو لوگ نئے ہیں آپ اُن میں سے کس کے کام سے متاثر ہوئئں ؟
جواب = ماشاءاللہ لوگ بہت اچھا لکھ رہے ہیں اور کسی ایک کا نام لکھ کر میں باقیوں کے ساتھ زیادتی نہیں کر سکتی لیکن اتنا ضرور کہوں گی کہ آج کا ادیب کل کی امید ہے ۔
نئے لکھنے والوں کے لیے کوئی پیغام؟
جواب = بہت سی باتیں ہیں جو نئے لکھنے والوں کو کہنا چاہتی ہوں سب سے اہم بات یہ کہ اپنے آس پاس کی کہانیاں لکھیں آپ نے اگر اس موضوع پر لکھنا ہے جس پر آپ کا مشاھدہ بھی کم ہے اور تجربہ بھی تو اس پر لکھنے سے اچھا ہے کہ آپ نہ ہی لکھیں کیونکہ آج کا قاری بہت سمجھ دار ہوچکا ہے
وہ فورا ہی یہ بات نوٹ کرلے گا کہ اس موضوع پر مصنف کی معلومات کم ہیں اور یہ ہی تحریر کی بدصورتی بن جائے گی ۔۔
آپ لکھنے سے پہلے پڑھنے کی طرف توجہ دیں کیوں کہ جو اچھا پڑھے گا وہی اچھا لکھ پائے گا ۔۔
اپنی تحریر کو مکمل کرکے رکھ دیں اور جب کچھ دن گزر جائیں تو نئے سرے سے اپنی لکھی ہوئی تحریر کو دوبارہ پڑھیں آپ کو خود ہی اندازہ ہوجائے گا کہ آپ نے کیا لکھا ہے اور آپ کو کیا لکھنا چاہیے تھا ۔
آپ اپنے ناقد جب خود بن جائیں گے تو کوئی بھی آپ کی تحریر کو رد نہیں کر پائے گا ۔
کسی بھی لکھاری کے لئے ایک بات بہت ہی اہم ہے اور وہ بات یہ ہے کہ لکھاری کو یہ اندازہ ضرور ہونا چاہیے کہ اسے کیا نہیں لکھنا ہے ۔۔میں نے بہت سے مصنفین کی ایسی تحریر پڑھی ہیں جس میں چھ ہزار الفاظ اس ایک لائن نے ضائع کر دیے جو لکھنی نہیں تھی لیکن مصنف نے اسے لکھ کر اپنے لکھے کے ساتھ اور قاری کے ساتھ زیادتی کردی ۔
سو اک ناقد کی نظر سے پڑھ کر اس لائن کو ضرور کاٹ دیں کیونکہ چھٹی انگلی کا فائدہ کچھ بھی نہیں ہوتا سوائے ہاتھ کو بدصورت کرنے کے