310

یوم تکبیر

تحریر شئیر کریں

یوم تکبیر جب کفر کے ایوان دہل اٹھے

یہ واقعہ ہے کوئی پون صدی قبل کا جب چشم فلک نے ایک ایس معجزہ رونما ہوتے دیکھا جس کا یقین خیر ہندوستان کو تو اب تک نہیں آیا اس کے ساتھ ساتھ سیاسیات کی تاریخ بھی انگشت بدندان ہے کہ یہ کیسے ممکن ہوا کہ کس طرح ایک منتشر قوم جو مختلف گروہوں میں بٹی ہوئی تھی وہ ہندو اور انگریزوں کی متحدہ مخالفانہ قوت کے باوجود قائد اعظم محمد علی جناح کی قیادت میں ایک آزاد اور خود مختار اسلامی ریاست قائم کرنے میں کامیاب ہوگئی-
دشمن نے ان ستر سالوں کے دوران بار ہا یہ کوشش کی ہے کہ کسی طرح اس مملکت خدا داد کا ( خدا نخواستہ) نام ہ نشان مٹا دیں اور اللہ کی رحمت سے ہر بار من کی کھانی پڑی ہے- مگر یہ ڈھیٹ دشمن اپنی سازشوں سے باز نہیں آیا-
ابھی پاکستانی قوم کے 1971 والے زخم پر کھرنڈ آیا ہی تھا کہ بھارت میں 98_1997 کے الیکشن کی مہم زوروں شوروں سے جاری تھی کہ اٹل بہاری واجپائی نے اپنی انتخابی مہم کے دوران یہ اعلان کیا کہ برسر اقتدار آ کر ان کی پارٹی اکھنڈ بھارت کے خواب کی تعبیر کے لیے ہر ممکن اقدام کرے گی- واجپائی نے برسر اقتدار آنے کے بعد اپنے جارحانہ عزائم کا بھرپور طریقے سے اظہار کیا اور 11مئی 1998 کو تین اور 13 مئی کو مزید دو دھماکے کرکے پاکستان کو یہ پیغام دیا کہ بھارت اپنے جارحانہ عزائم کو کسی بھی وقت عملی جامہ پہنا سکتا ہے۔ اٹل بہاری واجپائی کی یہ جارحیت پاکستان کی سالمیت کے لئے ایک چیلنج کی حیثیت اختیار کرچکی تھی۔ پوری قوم کی یہ تمنا تھی کہ بھارتی جارحیت کا بھرپور طریقے سے جواب دیا جائے-
قوموں کی زندگی میں ایسے لمحات ضرور آتے ہیں جب ایک صحیح فیصلہ اس کی تقدیر بدل کر رکھ دیتا ہے۔ ایسا ہی وقت پاکستان کی تاریخ میں بھی 28 مئی 1998ء کو آیا جب ایک صحیح اور بروقت فیصلہ نے ایک ایسا معجزہ کردکھایا کہ دنیا حیران و ششدر رہ گئی۔

پاکستان نے 28 مئی 1998ءکو چاغی کے پہاڑوں میں پانچ دھماکے کیے۔ جمعرات کا دن تھا اور سہ پہر 3 بجکر 40 منٹ پر یکے بعد دیگرے پانچ ایٹمی دھماکے کر کے پاکستان نے ہمسایہ اور دشمن ملک بھارت کی برتری کا غرور خاک میں ملا دیا۔ اس کےساتھ ہی پاکستان ایٹمی قوت رکھنے والا دنیا کا ساتواں اور عالم اسلام کا پہلا ملک بن گیا۔چاغی میں ہونےوالے دھماکوں کی قوت بھارت کے 43کلو ٹن کے مقابلے میں50 کلو ٹن تھی ۔ بھارت نے 11 مئی 1998ءکو فشن (ایٹم بم) تھرمو نیوکلیئر (ہائیڈروجن) اور نیوکران بموں کے دھماکوں کے بعد پاکستان کی سلامتی اور آزادی کےلئے خطرات پیدا کر دیئے تھے اور علاقہ میں طاقت کا توازن تبدیل ہونے سے بھارت کے جارحانہ عزائم کی تکمیل کی راہ ہموار ہو گئی تھی۔ جسے روکنے کےلئے پاکستانی عوام کے علاوہ عالم اسلام کے پاکستان دوست حلقوں کی طرف سے سخت ترین دباﺅ ڈالا جارہا تھا کہ پاکستان بھی ایٹمی تجربہ کر کے بھارت کو منہ توڑ جواب دے۔پاکستان کے اس اقدام کو امریکہ اور یورپ کی تائید حاصل نہ تھی۔ یہی وجہ تھی کہ امریکی صدر کلنٹن، برطانوی وزیراعظم ٹونی بلیئر اور جاپانی وزیراعظم موتو نے پاکستان پر دباﺅ ڈالا کہ پاکستان ایٹمی دھماکہ نہ کرے ورنہ اس کے خلاف سخت ترین پابندیاں عائد کر دی جائیں گی۔ دوسری طرف بھارت کی معاندانہ سرگرمیوں کی صورتحال یہ تھی کہ بھارت نے ایٹمی دھماکہ کرنے کے علاوہ کشمیر کی کنٹرول لائن پر فوج جمع کر دی تھی۔ اسطرح پاکستان بھارت جنگ کا حقیقی خطرہ پیدا ہو گیا تھا۔ بھارتی وزیر داخلہ اور امور کشمیر کے انچارج ایل کے ایڈوانی نے بھارتی فوج کو حکم دیا کہ وہ مجاہدین کے کیمپ تباہ کرنے کےلئے آزاد کشمیر میں داخل ہو جائے جبکہ بھارتی وزیر دفاع جارج فرنینڈس نے تو یہاں تک ہرزہ سرائی کی تھی کہ بھارتی فوج کو ایٹمی ہتھیاروں سے لیس کر دیا جائے گا۔ یہ سب کچھ پاکستان کے خلاف جارحانہ اقدامات کی تیاریاں تھیں۔یہ درست ہے کہ بھارت نے ایٹمی دھماکے کر کے ایک آزاد اور خودمختار ملک کی حیثیت سے اپنے حق کا استعمال کیا مگر یہ بات بھی اپنی جگہ ایک حقیقت ہے کہ بھارت کے ایٹمی دھماکوں کا واضح مقصد صرف اور صرف پاکستان کو خوفزدہ کرنا تھا اور ایک طاقتور ملک ہونے کا ثبوت دےکر پاکستان سمیت پورے خطے کے ممالک پر اپنی برتری جتانا تھا۔ اس کے حکمرانوں اور سیاستدانوں کا پاکستان کے بارے میں لہجہ ہی بدل گیا تھا۔ اس سلسلے میں عالمی شہرت یافتہ خبر رساں ایجنسی اے ایف پی نے دہلی سے ایک خبر جاری کی جس میں بھارتی دفاعی ماہرین کی طرف سے واجپائی حکومت کی طرف سے دھماکوں کو ایک جرا ¿تمندانہ اقدام قرار دیا گیا اور کہا گیا کہ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ بھارت عالمی دباﺅ کا مقابلہ کر سکتا ہے۔ بھارت کے تکبر اور غرور کا یہ عالم تھا کہ اس کے سائنسدانوں کی طرف سے یہاں تک کہا گیا کہ کمپری ہینسو ٹیسٹ بین ٹریٹی CTBT بھارت کےلئے نہیں کمزور ممالک کےلئے ہے مگر خدا کو اس ارض وطن پر دشمنان اسلام کے عزائم کی کامیابی کسی صورت گوارا نہ تھی جسکے چپے چپے پر ابھی تک پاکستان کا مطلب کیا لاالٰہ الا اللہ کے نعروں کی گونج سنائی دے رہی تھی-
پاکستان کے ایٹمی طاقت بننے کے بعد حقیقت پسندانہ تجزیہ کیا جائے تو ایسے مواقع نظر سے گزرتے ہیں جن پر اگر پاکستان ایٹمی طاقت نہ ہوتا تو انڈیا پاکستان کو کھا چکا ہوتا۔ قارئین کو ذہن نشین رہنا چاہیے کہ سری لنکا ہو یا بنگلہ دیش، نیپال ہو یا بھوٹان حتیٰ کہ مالدیپ ان سب کو بھارت نے ایٹمی قوت بن کر اپنی طفیلی ریاستیں اس حد تک بنا رکھا ہے کہ بنگلہ دیش جیسا مسلمان ملک پاکستان اپنی کرکٹ ٹیم بھیجنے کا اعلان کرکے بھارتی آنکھ کے اشارے پر یہ اعلان واپس لے لیتا ہے۔

جب سے انڈیا اور پاکستان کے درمیان ایٹمی توازن قائم ہوا ہے، بلکہ یہ کہنا چاہیے کہ پاکستان ایٹمی بموں کی تعداد اور کوالٹی میں بھارت پر برتری اور پاکستان کے میزائلوں کے سو فیصد ہدف کو تباہ کرنے کی صلاحیت نے بھارت کے مقابلے میں وطن عزیز کو محفوظ بنادیا ہے اور اس حد تک محفوظ بنادیا ہے کہ بھارت پاکستان پر حملہ نہیں کرسکے گا۔

پاکستان ایک امن پسند ملک ہے، کسی کیخلاف جارحانہ عزائم نہیں رکھتا، پھر بھی اپنے وجود کو قائم رکھنے کے لئے اسے بار بار جنگیں لڑنا پڑیں۔ پاکستان اپنے زیادہ سے زیادہ وسائل عوام کی معاشی حالت بہتر بنانے اور انہیں خوراک، تعلیم اور علاج و معالجے سمیت زندگی کی بنیادی سہولتیں فراہم کرنے پر صرف کرنے کا شدت سے آرزو مند ہے مگر دہشتگردی اور بیرونی جارحیت کے خطرات کی موجودگی میں اپنے دفاع سے غافل نہیں رہ سکتا۔ مختلف اسباب کی بناء پر اس کی سلامتی کے لئے خطرات آج بھی موجود ہیں جس کی وجہ سے وہ آج بھی اپنی دفاعی صلاحیتوں میں اضافے کی جدوجہد کررہا ہے۔ چند ماہ قبل جدید ترین سٹیلتھ کروز میزائل رعد کے کامیاب تجربہ بھی اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے-
2014ء میں ایٹمی مواد کو لاحق خطرات کی سیکیورٹی کیلئے اقدامات کے حوالہ سے انڈیکس میں پاکستان کا درجہ ہندوستان سے بھی بہتر ہے۔

2014 کے این ٹی آئی انڈیکس میں 9 ایٹمی مسلح قوتوں میں سے زیادہ تر کا درجہ وہی ہے، اس میں صرف ایک پوائنٹ کی کمی بیشی ہے جبکہ 2012 کے مقابلہ میں پاکستان کے ایٹمی مواد کی سیکیورٹی کے حوالہ سے تین درجے بہتری آئی ہے جو کہ کسی بھی ایٹمی ملک کی بہتری میں سب سے زیادہ ہے۔

ہندوستان کا ایٹمی مواد کے قابل استعمال ہتھیاروں کی سیکیورٹی کے حوالہ سے 25 ممالک میں سے 23 واں درجہ رہا ہے جبکہ چین کوانڈیکس میں 20 ویں درجہ پر رکھا گیا پاکستان کا فہرست میں 22 واں نمبر تھا۔

پاکستان کے جوہری پروگرام کے خالق اور ایٹمی سائنسدان ڈاکٹر عبدالقدیر خان کے مطابق پاکستان کا جوہری پروگرام امریکا اور برطانیہ سے زیادہ محفوظ ہے۔
آج سے اکتالیس سال پہلے بہت ساری چیزیں دسترس سے باہر تھیں، حتیٰ کہ ایک تو فوٹو کاپی مشین تک نہیں تھی، ایک ٹوٹی پھوٹی فورڈ ویگن ٹرانسپورٹ تھی اور ایک تاریک اور بدبو دار کمرہ لیبارٹری تھا جس میں بیٹھنے کے لئے چار کرسیاں بھی پوری نہیں ہوتی تھیں۔

یہاں پر بیٹھ کر ایٹمی سائنسدانوں نے ایٹم بم بنایا تھا۔ لوگوں کی طعن اس کے علاوہ تھی کہ ایک ملک میں جہاں توپ کا گولہ تک بنتا نہیں وہاں ایٹم بم کدھر سے بن جائیگا۔ گورنمنٹ کو بھی شاید یقین نہیں تھا کہ یہ کام ہوجائیگا اس وجہ سے فنڈز کی فراہمی بھی کوئی خاص نہیں تھی۔ اگر تھی تو ایک چیز اللہ تعالیٰ پر بھروسہ اور جذبہ صادق کہ یہ بقاء کی جنگ ہے اور اس جنگ کو لڑتے ہوئے یا تو ہم کامیاب ہوجائینگے یا پھر مرمٹیں گے، اسکے علاوہ اور کوئی راستہ نہیں ہے۔ ان باتوں کا تذکرہ محض اس لئے کیا ہے کہ قوم کو یہ معلوم ہو کہ سائنسدانوں اور انجینئرز نے کتنی خاموشی سے انتہائی نامساعد حالات میں کام کیا ہے۔

اگر 28 مئی کے واقعات پر نظر دوڑائی جائے تو یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہوجاتی ہے کہ اگر محنت، لگن اور ایمانداری سے کام لیا جائے تو ناممکن کو بھی ممکن بنایا جاسکتا ہے، پاکستان میں جس طرح اٹامک انرجی کمیشن، نیسکام، آر ایل کے ادارے کام کررہے ہیں اگر اسی طرح ملک کے دوسرے ادارے بھی کام کریں تو ہم صرف 10 سال کے قلیل عرصہ میں ملک پاکستان کو ترقی یافتہ ملک بناسکتے ہیں۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں