من چلے کا سودا
ساری کتاب ایک طرف اور اشفاق احمد کا ناول من چلے سودا ایک طرف۔ اشفاق احمد کے بہت سے ناول ہیں جن میں زاویہ ، ننگے پاؤں اور بھی بہت سے وہ سب اپنی مثال آپ اور زبردست ہیں۔ مگر من چلے کا سودا میں جو موضوع اور سبق موجود ہے وہ کسی اور میں نہیں۔ من چلے کا سودا امتزاج ہے سائینس ، صوفی اور تصوف کا ان تینوں کو من چلے کا سودا میں ایک ساتھ خوبصورتی سے بتایا گیا۔
من چلے کا سودا پر 1991ء میں ڈرامہ بھی بنا جس کو زبردست طریقے سے نہ صرف فلمایا گیا بلکہ ڈرامے میں کردار نے کہانی کے ساتھ انصاف کیا۔
من چلے کا سودا کی کہانی میں سائنس ، تصوف اور صوفی تینوں کو ایک ساتھ جوڑا گیا۔ اشفاق احمد کا کہنا ہے اگر تصوف کے آخری حد تک جانا ہے اللہ کے قریب ہونا ہے تو سائنس کے زریعے جانا پڑے گا۔
اس میں کہتے ہیں کہ سائنس دان اور صوفی کا راستہ ایک ہے۔ آج کل کے دور میں وہ کہتے ہیں کہ ماڈرن دور میں صوفی اور تصوف سائنس میں ڈھلتے جارہے ہیں۔ اگر آپ کو اپنی زندگی کا راز سمجھنا ہے تو سائنس اور تصوف کی گہرائی میں جانا ہوگا۔ اور سائنس بھی عام نہیں بلکہ اس میں اشفاق احمد کوانٹم فزکس کی بات کرتے ہیں۔
ایسا موضوع اور اس طرح کا نظریہ کسی بھی کتاب میں آپ کو نہیں ملے گا جتنا مضبوط نظریہ اس میں بیان کیا گیا ہے۔ وہ اور کسی نے کہیں نہیں کیا۔
اشفاق احمد کا اس کتاب میں کہنا ہے کہ کوانٹم فزکس کے سائنس دان موجود اور لا موجود کو سمجھتے ہیں جانتے ہیں۔ اور صوفی ازم بھی موجود اور لا موجود پر یقین رکھتے ہیں۔ اور اس کو سمجھتے ہیں۔ من چلے کا سودا میں اس بنیاد پر ہی کہانی بنی گئی۔
اس میں یہی بتایا گیا کہ اگر آپ نے اللہ کی قربت حاصل کرنی ہے تو سائنس کے رو سے جانا ہوگا۔
اس ناول کی کہانی ایک امیر بزنس مین کے گرد گھومتی ہے جس کے پاس دولت کی پیسے کی کوئی کمی نہیں ہے مگر اسے سکون کی تلاش ہے۔ اسے زندگی میں سب کچھ کے باوجود سکون نہیں ہے اور اسے اپنی زندگی میں سبق چار عام لوگوں سے ملتا ہے۔ موچی ۔، چرواہا ، ڈاکیہ اور خاک روب یہ چاروں اسے وقتاً فوقتاً ملتے ہیں۔ اور وہ ان لوگوں سے تصوف یا صوفی ازم کے آخری حد تک پہنچتا ہے۔ اس کتاب کے تمام مکالمے بے حد جاندار اور زبردست ہیں جسے پڑھ کر آپ کچھ سیکھیں گے۔