196

مردوں کے حقوق کے لیے آواز اٹھائیں

تحریر شئیر کریں

مردوں کے حقوق کے لیے آواز اٹھائیں

حال ہی میں رابی پیر زادہ کی ویڈیو نظر آئی جس میں انہوں نے کہا کہ ہمارے ہاں ایک خاص کلاس میں عورتیں مردوں کے حقوق ادا نہیں کرتیں بلکہ ان کے ساتھ زیادتی کرجاتی ہیں۔ اس ویڈیو کا وائرل ہونا تھا کہ خاص قسم کے لبرلز ان الفاظ کی مخالفت میں آگے آگئے ہیں۔

اور فیمینسٹ کی لہر اتنی بڑھ گئی ہے ان کی مضبوطی اس قدر ہوگئی ہے کہ اب کچھ مذہبی حلیے میں نظر آنے والے لوگ صرف عورتوں کے حق میں بولتے ہیں۔اور مردوں کے حق میں جملے انہیں بھی پسند نہیں آتے۔ ان کے خیال کے مطابق مرد ہی ہر جگہ ہر صورت میں ظالم ہیں ۔ اور اسی کو اب سب کو قبول کرنا چاہئے۔ وہ اسے حقیقت بنانے پر تلے ہیں۔

اگریہاں کوئی مردوں کےحق میں دوجملے کہہ دے تو ان خاص لبرلز اور ایک قسم کے کلاس کی عورتوں کو بہت برا لگ جاتا ہے۔ ان کے تن بدن میں آگ لگ جاتی ہے جیسے کوئی گناہ کا کام کردیا ہو۔ عورت کے خلاف لکھنا ایک گناہ سمجھا جاتا ہے۔ وہ بھی عورتوں کی ایک خاص قسم ہے جنہیں مردوں کے حق میں لکھنا اور کہنا بلکل پسند نہیں۔

جبکہ ہر بار بلکہ ہمیشہ عورتوں کے حق میں لکھا گیا ہے تو کیا ان کے حق پر لکھنا مردوں کے خلاف ہوجاتا ہے؟۔ اس وقت ہر این جی او ہر ٹرسٹ صرف عورتوں کے حق کے لئے ہی ہیں۔ ہر کوئی عورتوں کے حق کے لئے ہی لڑتا ہے۔

پڑھنے میں لگے ہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ مردوں کے حقوق پر بھی بات کی جائے۔ مرد ہو یاعورت صرف عورتوں کے حق میں ہی سب بات کرتے ہیں۔ صرف ان کے حق کے لئے ہی لڑتے ہیں۔

اس دنیا میں ہر طبقے کے لئے لوگ آوز اٹھاتے ہیں، اپنے لئے بھی ہر کوئی آواز اٹھاتا ہے۔ مگر اس معاشرے میں بس مرد ہے جو اپنے لئے بھی آواز نہیں اٹھاسکتا ورنہ اسے مرد ہو یا عورت دونوں مل کر اس کے لئے بولنا مشکل کردیں گے۔

مرد سے یہ توقع کیوں کی جاتی ہے وہ عورتوں کے حق کے لئے لڑے اور وہ بھی خود کے خلاف ہی یہ منافقت ہے بلکہ مرد کے ساتھ ذیادتی ہے۔

عورتوں کی فطرت ہے کہ وہ اپنی تکلیف اور دکھ کا اظہارکرتی ہیں مگر مرد جلدی اپنے جذبات کا اظہار نہیں کرپاتے وہ رونے کو مردانگی کے خلاف سمجھتےہیں۔ لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ انہیں تکلیف نہیں ہوتی یا انہیں دکھ نہیں ہوتا۔

بھی۔

ابھی اس وقت ضرورت ہے کہ مرد کے لئے بھی این جین اوز بنائی جائیں ان کے حق کی بات کی جائے۔ ایسا ادب تخلیق کیا جائے جس سے مرد کے اظہار کے لئے زبان ملے۔ عورت کے حقوق کی ہی بات بہت کی جاچکی ہے اب ضروری ہے کہ ان مردوں کی بھی بات کی جائے جو مظلوم ہیں۔ جن پرساری زمہ داری ہوتی ہے وہ بھی مظلوم ہوتے ہیں۔ کم سے کم اس تاثر کو ختم کیا جائے کہ ہر جگہ اور ہر عورت مظلوم ہوتی ہے۔

دیکھا جائے تو یہاں ہر طبقے کے حقوق کے لئے عالمی دن منایا جاتا ہے ۔عورتوں کے عالمی دن پر مارچ بھی ہوتا ہے۔ مگر کبھی مرد کے عالمی دن کاسنا ہے کہ کسی نے کچھ کہا ہو کچھ کیا ہو اور مرد تو اپنے لئے کچھ کہہ ہی نہیں سکتا۔ ہم مرد سے یہ

توقع کرتے ہیں کہ وہ عورت کو عزت دے حق دے مگر جب ہم اسے کچھ نہیں دیں گے تو وہ ہمیں کیسے دے گا۔ مرد سے صرف لینے کی توقع نہیں کرسکتے انہیں ہمیں کچھ دینا بھی چاہئے۔ وہ بھی اس معاشرے کا حصہ ہے۔

مردوں کے حقوق کے لیے آواز اٹھائیں یہ وہ موضوع ہے جس پر کام کی ضرورت ہء

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں