اہل نظر
ام محمد عبداللہ
کل رات عجیب واقعہ ہوا۔
سردیوں کی طویل راتوں میں ہم ماں بچوں کا ایک ہی لحاف میں چھپ کر مونگ پھلیاں کھانا، پہیلیاں بوجھنا، لفظی زنجیر کھیلنا یا پھر کہانیاں سنانا تو معمول ہے۔
کل بھی ایک ایسی ہی دلچسپ سرگرمی جاری تھی۔ میں بچوں کو دنیا کے ایک خطے سے متعلق کچھ اشارے بتا رہی تھی اور بچوں نے ان اشاروں کی مدد سے خطے کا نام بوجھنا تھا۔
میں مزے مزے سے بچوں کو بتا رہی تھی۔
حضرت ابراہیم علیہ السلام نے عراق چھوڑ کر اس خطے کی جانب ہجرت کی۔ حضرت اسحاق اور ان کے بیٹے حضرت یعقوب علیھم السلام نے بھی یہییں فریضہ دعوت و تبلیغ سرانجام دیا۔ حضرت موسی علیہ السلام بھی اپنی قوم کو لے کر اسی جانب عازم سفر ہوٸے۔ حضرت یوشع بن نون نے بھی اسی سرزمین کو کفار کے تسلط سے آزاد کروایا۔
اسی مبارک سرزمین پر حضرت داٶد علیہ السلام کو نبوت اور بادشاہت کا تاج پہنایا گیا۔ اسی سرزمین پر حضرت سلیمان علیہ السلام کو بے مثال و بے نظیر بادشاہت ملی۔ یہیں حضرت زکریا اور حضرت یحیی علیھم السلام مبعوث ہوٸے۔ یہیں حضرت مریم علیہ السلام پیدا ہوٸیں اور یہی بن باپ کے جلیل القدر پیغمبر حضرت عیسی علیہ السلام کی جاٸے پیداٸش ہے۔
اسی سرزمین کے ایک بابرکت مقام پر رات کے کسی لمحے میں ہمارے پیارے رسول حضرت محمد صلى الله عليه واله وسلم کو لایا گیا اور آپ کی اقتدا میں تمام پیغمبران کرام کو جمع کر دیا گیا۔“
میں مکمل تاثرات اور آواز کے اتار چڑھاٶ کے ساتھ بچوں کو واضح واضح اشارے دے رہی تھی۔
بچے بھی آنکھیں مٹکا مٹکا کر خوب دلچسپی سے سن رہے تھے کہ میرے منجھلے شہزادے پیارے عبید سے رہا نہیں گیا اور وہ جوش سے بول اٹھا۔ ”ارض فلسطین“
”مگر اماں! فلسطین ہے کہاں؟“
میرے چھوٹے شہزادے حارث نے سوال کیا۔
فلسطین کہاں ہے؟؟؟ میں سوچ رہی تھی کہ کیسے جواب دوں
کہ میرا بڑا شہزادہ عبداللہ جھٹ سے دنیا کا نقشہ جو ہم نے فریم کروا کے راہداری میں لگا رہا تھا، اتار لایا۔
نقشہ قالین پر رکھنے کے بعد ملکہ عالیہ اور سب شہزادے مل کر اس پر انبیاء اکرام کی سرزمین فلسطین تلاش کرنے لگے۔
مگر یہ کیا؟
عجیب واقعہ!!!
نقشے پر کہیں فلسطین کا نام نہیں لکھا تھا۔
”اماں! کیا یہ نقشہ پاکستان میں نہیں چھپا؟“ عبید نے حیران ہوتے ہوٸے پوچھا
”نہیں چھپا تو پاکستان میں ہی ہے۔“ میں خود حیران تھی۔ اتنے اہم ملک کا نام نقشے پر کیوں نہیں؟ پرنٹنگ والوں سے اتنی بڑی غلطی۔ میں سوچ میں پڑ گٸی۔
”ٹھہریں! گوگل پر سرچ کرتے ہیں۔“ عبداللہ نے اپنا لیپ ٹاپ آن کیا۔
دولت فلسطین یا ریاست فلسطین (عربی: دولة فلسطين) ایک محدود تسلیم شدہ خود مختار ریاست ہے جس کی آزادی کا اعلان 15 نومبر 1988ء کو تنظیم آزادی فلسطین اور فلسطینی قومی کونسل نے کیا تھا۔
محدود تسلیم شدہ ریاست؟ آزادی کا اعلان 1988؟
بچوں کے پاس سوال ہی سوال تھے۔
اور میرے پاس کوٸی جواب نہیں تھا کہ میرے شہزادوں کی سلطنت، ان کی میراث انبیاء کی سرزمین فلسطین کا نام ہمیں نقشوں میں لکھا کیوں دکھائی نہیں دے رہا؟ اور یہ استاد گوگل کیا فرما رہے ہیں؟
میں نے قالین پر پڑے نقشے کو گھورا جیسے میرے گھورنے سے اس پر فلسطین کا نام نمودار ہو جاٸے گا۔
”پتا نہیں کیوں اس پر ہمیں فلسطین نظر نہیں آ رہا؟ میں نے کندھے اچکاٸے۔
”اور سر گوگل بھی کچھ عجیب ہی بتا رہے ہیں۔“ عبداللہ بھی پریشان تھا۔
”کیونکہ ہمارے بیدار دشمن یہود نے اس کا نام نقشوں میں اسرائیل رکھ لیا ہے۔
اور ہم غافل مسلمانوں کو اس کی خبر تک نہ ہوئی اور کیوں کر ہوتی کہ ہمیں تو یہ بھی معلوم نہیں کہ قرآن اور حدیث میں بابرکت زمین سے مراد یہی فلسطین اور اس کے آس پاس کا علاقہ ہے- ہمارے بادشاہ سلامت یعنی بچوں کے ابا جان نے گفتگو میں پہلی دفعہ حصہ لیا جو بظاہر ہم سے بے خبر اپنے لحاف میں دبکے ہوٸے تھے۔
”کیا مطلب؟“
ہم سب ان کی جانب متوجہ ہوٸے۔
مطلب یہ کہ
یہ سارا فلسطین ہے۔
انہوں نے نقشے پر اپنی انگلی پھیری۔ وہ اب اٹھ کر ہمارے پاس ہی آ بیٹھے تھے۔
اور 1949 سے پہلے تک بھی یہ سارا علاقہ فلسطین ہی کہلاتا تھا۔
اور کیوں نہ کہلاٸے کہ
ہزار ہا سالوں سے فلسطین، عرب قباٸل کا وطن ہے۔ ہاں اس ہزار سالہ تاریخ میں چند سو برس یہاں یہود بھی تخت اقتدار پر براجمان ہوٸے۔
پھر ہوا کچھ یوں کہ
پہلی عالمی جنگ میں صہیونی یہودیوں اور برطانیہ نے ایک خفیہ گٹھ جوڑ کے ذریعے دنیا کے کونے کونے سے یہودیوں کو لا کر ارض فلسطین پر اکھٹا کیا۔ یورپ سے لاٸے گٸے ان یہودی غاصبوں نے یہاں اپنے قدم جمانے شروع کیے۔
یہود و نصاری کے حقوق کا تحفظ کرنے والی اقوام متحدہ نے یہود کی چند سو برس کی حکمرانی کو جواز بنا کر اور عرب مسلم قباٸل کی کٸی ہزار سال حکمرانی کو پس پشت ڈالتے ہوٸے ساڑھے بارہ لاکھ مقیم مسلمان فلسطینوں کو فلسطین کا 45 فی صد رقبہ جبکہ ساری دنیا سے اکھٹے کر کے لاٸے گٸے چھ لاکھ یہودیوں کو 55 فی صد علاقہ بخش دیا۔ مسلم دشمن عالمی طاقتوں کی پشت پناہی پر ہزاروں سالوں سے آباد فلسطینی مسلمانوں کو جبرا ان کے گھروں سے بے دخل کر کے کیمپوں میں منتقل کر دیا گیا۔
اس سارے گھناٶنے کھیل میں ہنستے بستے فلسطینی مسلمانوں کے گھر، کھیت کھلیان، باغات، کاروبار اور دفاتر غرض سب کچھ اجاڑ دیا گیا اور اجاڑا جا رہا ہے۔ فلسطینی مسلمانوں جس میں بچے بوڑھے مرد عورتیں سب شامل ہیں کا خون پون صدی سے پانی کی طرح نہایت بے دردی سے بہایا جا رہا ہے کیونکہ اسراٸیل ایک توسیع پسند ملک ہے عرب ممالک کے ساتھ جنگیں چھیڑ کر اب تک اسراٸیل پورا فلسطین اور بیت المقدس اپنے قبضے میں لے چکا ہے۔
اب یہ حصہ غزہ کی پٹی Ghaza Strip اور مغربی کنارہ West Bank ہی فلسطین کہلاتا ہے جبکہ باقی سب اسرائیل کے نام سے مشہور کر دیا گیا۔ مزید علاقوں پر قبضے کا سلسلہ بھی ساتھ ساتھ جاری ہے۔ دنیا کے نقشے پر تو آپ کو شاید ہی کبھی فلسطین لکھا ملے۔
ہم سب آنکھیں پھاڑے ایک عظیم حادثے و سانحے کو سمجھنے کی کوشش کر رہے تھے
کہ بچوں کے والد صاحب پھر گویا ہوٸے
اسرائیلی فوج نہتے فلسطینیوں کو کچلنے کے لیے مسلسل سرگرم ہے۔ پوری دنیا سے یہودی اکٹھے کر کے فلسطین میں بسانے اور فلسطینیوں کی اکثریت کو اقلیت میں بدلنے کے جرم وہ سب یورپی ممالک شامل ہیں جہاں جانوروں کے حقوق پر تو بہت بات ہوتی ہے لیکن فلسطینیوں کی داد رسی کر نے والا کوئی نہیں۔ اسرائیل چاہے بم برسائے، ناکہ بندی کر ے، فلسطینیوں کی نسل کشی کرے، ان کا معاشی قتل کر ے، دیوار کی تعمیر کرے، مسجد اقصیٰ کی بے حرمتی کرے یا کوٸی بھی انسانیت سوز ظلم ڈھاٸے اسے کوئی روکنے والا ہے نہ باز پرس کر نے والا۔ اسی لیے ہزاروں جانیں گنوانے اور باعزت و پر سکون زندگی کے لیے ترستے فلسطینی دنیا کی آنکھوں سے اوجھل ہیں ۔
انہوں نے دکھ سے بتایا۔
”اتنی بڑی دھاندلی اتنا بڑا ظلم!“میں تو چیخ ہی پڑی ”اور سارا عالم اسلام خاموش ہے؟ انسانی حقوق کی تنظیمیں کہاں ہیں؟“
بچے بھی حیران و پریشان بیٹھے تھے۔
انہوں نے گہرا سانس لیا اور گویا ہوٸے
سارا عالم اسلام اس لیے خاموش ہے کہ ہم فرقوں، نسلوں، قوموں اور وطنوں میں بٹ چکے ہیں۔ ہماری مصروفیت دو وقت کی روٹی کمانے اور فراغت علاقاٸی سیاست، عالمی شو بز اور کھیل کے ہنگاموں کی نذر ہو چکی ہے۔
انسانی حقوق کی تنظیمیں کیونکر بولیں گی کہ سارا میڈیا اسراٸیل کے قبضے میں ہے وہ جھوٹ پر جھوٹ بول کر سچ کو منوں مٹی تلے دفن کر رہے ہیں کہ فلسطین ایک بے آب و گیاہ زمین تھی جسے انہوں نے آ کر اپنے علم و ہنر سے آباد کیا
اور ہم سچ کو سچ کہہ کر دنیا تو کیا اپنے سامنے بولنے پر بھی تیار نہیں۔موجودہ دور علم اور ابلاغ کا دور ہے۔ میڈیا ذہن سازی کرنے اور جھوٹ کو سچ اور سچ کو جھوٹ ثابت کر رہا ہے۔ ایسے میں اگر کچھ مردان علم و نظر اس میدان میں سچ و حق سے لیس ہو کر اتر آٸیں۔ عامتہ المسلمین کے سامنے ارض فلسطین اور مسجد اقصی کی اہمیت و فضیلت رکھیں اور دنیاٸے عالم کے سامنے فلسطینوں کی مظلومیت اور اسراٸیل کی جارحیت کا واضح نقشہ کھینچ دیں اور ہر ہر فورم پر اہل فلسطین کے لیے آواز اٹھاٸیں تو اسراٸیلی جارحیت کو پسپا کیا جا سکتا ہے فلسطینوں کو ان کی چھینی ہوٸی ریاست واپس مل سکتی ہے اور مسلمانوں کی مشترکہ میراث مسجد اقصی کو تحفظ بھی
فراہم کیا جا سکتا ہے۔
مگر کون آواز اٹھاٸے کہ
واٸے ناکامی متاع کارواں جاتا رہا
کارواں کے دل سے احساس زیاں جاتا رہا۔
وہ لمحہ بھر کے لیے سر جھکاٸے خاموش ہوٸے تو میں اپنے فون کی جانب متوجہ ہو گٸی۔
”ملکہ عالیہ! آپ کہاں فون میں مگن ہو گٸیں۔“ مجھے فون پر کچھ ٹاٸپ کرتے دیکھ کر انہیں حیرانی ہوٸی۔
”میں نے آن لاٸن فضیلت بیت المقدس اور فلسطین و شام کی کتاب کا آڈر دے دیا ہے۔
میں اور بچے مل کر یہ کتاب پڑھیں گے ان شاءاللہ۔“
میں نے اعلان کیا۔
مطالعے کے شوقین میرے بچے اس اعلان پر بہت مطمٸن تھے۔ ان کے دل اہل فلسطین کے دکھ میں تڑپ رہے تھے اور آنکھیں ان کی مدد کے خواب بن رہی تھیں۔
اور مجھے اقبال رحمہ اللہ کا وہ شعر یاد آ رہا تھا۔
کریں گے اہل نظر تازہ بستیاں آباد
میری نگاہ نہیں سوٸے کوفہ و بغداد