میری چھوٹی بہن ملکہ
جب میں تعلیم کے لیے گھر سے نکلا تو ایسا محسوس ہوا جیسے ایک نئے ایڈونچر کا آغاز ہو رہا ہے۔ میں نئے لوگوں سے ملنے، نئی جگہیں تلاش کرنے اور اپنے بارے میں مزید دریافت کے لیے پرجوش تھا۔ لیکن جیسے جیسے ہفتے مہینوں میں بدلتے گئے، اور مہینے سالوں میں، میں اپنے گھر اور خاندان کی یادوں کو محض محسوس کر سکتا تھا جسے میں نے بہت پیچھے چھوڑ دیا تھا
، بہت پیچھے۔
خاص طور پر ملکہ، میری چھوٹی بہن، مجھے بہت یاد آتی۔ ہم ہمیشہ قریب رہتے ، ان گنت گھنٹے اکٹھے کھیلتے، راز بانٹتے، اور مستقبل کے خواب دیکھتے ۔ دور ہونے کے بعد میں نے اپنی پڑھائی جاری رکھی اور وہ گھر میں بڑی ہوتی چلی گئی، ایسا محسوس ہوا کہ ہم دنیا سے الگ ہو گئے، کٹ گئے۔
اس نے ہر ممکن حد تک رابطے میں رہنے کی کوشش کی- باقاعدگی سے کال کرنا، خطوط لکھنا، مشورے کرنا۔وقت گزرتا گیا، میں محسوس کر نے لگا کہ ہمارے درمیان فاصلہ وسیع سے وسیع تر ہوتا جا رہا ہے۔
عید کی چھٹیاں آئیں تو میں گھر گیا۔ وہ مختلف لگ رہی تھی- پُر اعتماد، بڑی عمر کی، زیادہ سمجھدار، اور اپنی مہم جوئی اور تجربات کے بارے میں کہانیوں سے بھری ہوئی۔ ایک دن ہم امی ،ابو اور ملکہ بات کر رہے تھے، ملکہ بیچ میں اٹھی اور تھوڑی دیر میں چائے لیکر حاضر ہو گئی تھی—
میں سوچنے لگا میں نے ملکہ کو آخری بار کب دیکھا تھا، وہ کتنی بڑی ہو گئی۔ میری بہن اب وہ چھوٹی لڑکی نہیں رہی تھی جسے میں نے پیچھے چھوڑا تھا – وہ سمجھدار اور بہت بڑی ہو گئی تھی۔
ابھی میں ماضی میں کھویا ہی تھا کہ وہ گویا ہوئی:” بھیا کچھ ملازمت نہیں ملتی تو یہیں رضاء اللہ بھیا کی طرح کچھ کر لیجیے، کب تک باہر رہیے گا، اتنا بڑا گھر خالی خالی ویران حویلی لگتا ہے، امی اور ابو بھی بیمار رہتے ہیں، کب اچانک زیادہ بیمار پڑ جائیں نہیں کہا جا سکتا، کرنے کے لیے تو بہت کچھ ہے، آپ یہیں خالی پڑی زمین میں اسکول کھول سکتے ہیں، آج کل اسکول بھی اچھا بزنیس ہے۔ آخر کب تک باہر رہیے گا، کوئی انتہا تو ہوگی؟“: وہ بولے چلی جا رہی تھی اور میں بت بنا اس کی باتیں سن رہا تھا۔
وقت بہت تیزی سے گزر رہا تھا، میں گھر سے پھر دلی آگیا تھا، ہماری زندگیوں میں مصروفیات کے پہاڑ بڑھتے جا رہے تھے، اب ہماری گفتگو بھی کم کم ہی ہوتی تھی۔ میں اپنے کیریئر کے پیچھے دوڑ رہا تھا، اس نے بھی گریجویشن مکمل کر لیا تھا۔
پھر، ایک دن، ابا نے مجھ سے کیا وہ کہہ رہے تھے : ”ملکہ کا فلاں جگہ رشتہ کے بارے ہم سوچ رہے ہیں، تم کیا کہتے ہو؟—“
میں ایک مرتبہ پھر ماضی میں کھو گیا تھا، کیا ملکہ اتنی بڑی ہو گئی؟—
میں دسیوں سال پیچھے پہنچ چکا تھا جب وہ دوڑتی ہوئی گرجاتی، رونے لگتی اور میں اس کو گود میں اٹھا کر چپ کراتا۔
میں نے اسے گلیارے پر چلتے ہوئے دیکھا، سفید فراک پہنی میری چھوٹی بہن ملکہ—
محمد علم اللہ، نئی دہلی