میرا سوہنا شہر لاہور
میں پنجاب کے اس شہر بے مثال کی باسی ہوں جو تاریخ کا مرکز ،تجارتی و ثقافتی و سیاسی سرگرمیوں کی آماجگاہ ہے۔ اس کی رونق میں عجب مستی ہے۔ یہ بڑا میزبان شہر ہے جو آپ کی میزبانی میں 12 دروازے کھولے کھڑا ہے باوجود اس کے کہ اس کے سر پر کئی سلطنتوں کے دارالخلافہ ہونے کا تاج ہے۔
اس کے چھلکتے رنگوں کا لطف ہر کسی کے لئے عام ہے۔ یہ وہ شہر ہے جس کو حاصل کرنے کے لئے صدیوں سلاطین جنگوں میں ملوث رہے ۔ باالآخر 12 دروازوں کو اس کی حفاظت پر مامور کرنا پڑا ۔
یہ باغوں کی سرزمین ہے جسے گیارہویں صدی میں محمود غزنوی نے اسلام سے روشناس کروایا۔
جی ہاں آپ درست سمجھے!
یہ پاکستان کا دل “لاہور” ہے۔ جس میں زندگی کبھی مانند نہیں پڑتی۔ یہ حکمرانوں کی بے پناہ نوازشات کا مرکز دریائے راوی کے کنارے پر ہر دم آنکھیں کھولے جاگ رہا ہے۔ اس کی تاریخی عمارتوں کی کیا بات کروں!بادشاہی مسجدہو ، مسجد وزیر خان ،شاہی قلعہ ، مینار پاکستان ، عجائب گھر ،شالیمار باغ،باغ جناح ،شیش محل ہو یا دیگر عمارتیں۔
سرحد پار سیاحوں اور مداحوں کو اپنے سحر کی لپیٹ میں لئے ہوئے ہیں۔یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ عالمی و تاریخی ورثہ کا ایک بڑا حصّہ اس کے آنگن میں آ گرا ہے۔
اس کے کھانوں کھابوں کا تو ہر کوئی دیوانہ ہے۔حلوہ پوری ،بونگ ،پھجے کے پاۓ ،کڑاہی ،چرغہ ،بریانی ،پٹھورے ،ہریسہ اور کیا کیا گنواؤں ؟
اور خواتین کے دل باغ باغ کرنے کا یہاں خوب انتظام ہے ۔انار کلی بازار سے نکلیں تو شاہ عالمی بازار ،اوریگا بازار ،باغبانپورہ بازار ۔ ابھی بھی دل نہیں بھرا تو لبرٹی چلی جایئں ۔دیگر شاپنگ سینٹرز بھی موجود ہیں جب تک جیب جواب نہ دے دے خریداری كرسكتی ہیں ۔vمگر وہ جیب شوہر کی نہ ہو ورنہ آئندہ لاہور گوگل پر ہی دیکھ سکیں گی ۔
یہاں آپ کو بیماریوں کے علاج کے لئے بے شمار سرکاری و غیر سرکاری ہسپتال بھی ملیں گے اور جہالت کی دوا کے لئے ان گنت جامعات و مدارس بھی ۔
تحریک پاکستان میں بھی اس کا کردار کچھ کم نہیں ۔کانگریس کا پہلا اجلاس بھی ادھر ہوا اور مسلم لیگ کاوہ اجلاس یاد ہے جس میں قرارداد پاکستان منظور ہورہی تھی ۔ تب مینار پاکستان اپنی عظمت و شان لئے فخر و شکر کے احساس سے گردن اونچی کر رہا تھا ۔اور مسلمانوں کو پیغام دے رہا تھا کے تمھارے حوصلے اور عزائم بھی اتنے ہی بلند ہونے چاہیئں۔
اور تو اور اور اس کو شاعر مشرق کی محبت کا شرف بھی حاصل ہے ۔ جنہوں نے رہائش کے لئے بھی اس کو چنا اور ان کا مقبرہ بھی ادھر ہی موجود ہے۔
یہ مہمانوں کی آمد کا ہر دم منتظر رہتا ہے ۔کبھی آیئں نا میرے لاہور۔میں آپ کو بادشاہوں کے ذوق کے گہرے نقوش دکھاؤں ۔ان کی محبت کے بکھرے رنگ دکھاؤں ۔
سب دیکھ کر دم بخود نہ ہو گیے ۔۔۔ پھر کہنا !
بے اختیار یہ نہ کہ اٹھے “لاہور ،لاہور اے”۔۔۔ پھر کہنا !
ثامرہ نذیر