*اس یوم دفاع پر*
*ام محمد عبداللہ*
1965 کی مختصر جنگ پاکستانی تاریخ میں ایک روشن باب ہے۔ قوم نے اچانک ہونے والے حملے کو اپنے عزم و ہمت سے ناکام بناکر دشمن کو عبرتناک شکست دی۔
سپاہیوں نے دلیری و بہادری کے نئے ریکارڈ قاٸم کیے، شاعروں نے لہو گرما دینے والا کلام لکھا، عام افراد کا حوصلہ آسمانوں کو چھونے لگا۔ خواتین اللہ پاک کے حضور مجسم دعا ہو گٸیں۔ پوری قوم یک جان و یک قالب بن کر دشمن کے ناپاک عزاٸم کے سامنے کھڑی ہو گٸی۔
پاکستانی قوم کن عظیم الشان صفات کی حامل ہے جنگ کی ان چند جھلکیوں سے اس کا ادراک کیا جا سکتا ہے۔
ممتاز ادیب مختار مسعود نے اپنی کتاب لوحِ ایام میں ایک دلچسپ واقعہ لکھا ہے۔
’’مجھے 6 ستمبر 1965 کی دوپہر لاہور میں حکومت مغربی پاکستان کے محکمہ مالیات میں ہونے والا ایک اجلاس یاد آیا۔ ہندوستان کو کسی اعلانِ جنگ کے بغیر پاکستان پر حملہ کئے ہوئے چھ گھنٹے ہوچکے تھے۔ صوبائی حکومت کے پاس مقامی فوج، بارڈرپولیس، سول ڈیفنس، ریڈکراس اور کئی دوسرے اداروں سے کچھ ایسے مطالبات زر آئے جو صوبائی دائرہ کار سے باہر تھے یا ان کے لیے کابینہ اور گورنر کی منظوری درکار تھی۔ گورنر سوا دوسومیل دور نتھیا گلی میں تھے۔ وزیرِ خزانہ 180 میل کے فاصلے پر راولپنڈی میں تھے۔ دشمن واہگہ پر کوئی بارہ تیرہ میل کے فاصلے پر تھا جس کی افواج کا سربراہ شراب سرِ عام لاہور جیمخانہ کلب میں پینا چاہتا تھا۔
اندریں حالات ہمیں ضابطہ کار کے بارے میں فیصلہ کرنے میں صرف پانچ منٹ لگے۔ اصولی طور پر یہ طے ہوگیا کہ فیصلہ کن لمحہ کے وقت جو کوئی جہاں کہیں بھی ہے وہی وہاں کے لیے سب کچھ ہے۔ سپاہی اگر محاذ پر تنہا ہے تو وہ اس لمحہ کے لیے سپہ سالار بھی ہے۔ سیکشن افسر اکیلا ہے تو وہی گورنر ہے۔ اس سے بڑا افسر تو وہ بذاتِ خود حکومتِ پاکستان ہے۔ اسی اصول کے تحت ہم نے گورنر مغربی پاکستان کے لاہور واپس آنے تک چند گھنٹوں میں 6 کروڑ روپیہ جنگ سے پیدا ہونے والی صورتحال پر خرچ کردیا۔ رولز آف بزنس اور آئین کو بھلادیا گیا۔ صرف آئینِ جنگ پر نظر رکھی۔
طریقِ کار یہ تھا کہ محکمانہ تجویز کے تحریری ڈرافٹ بنانے، درست کرنے، ٹائپ کرنے، دستخط کرانے، ڈائری پر چڑھانے اور محکمہ مالیات میں بھیجنے کی بجائے متعلقہ محکمہ کے دو ذمہ دار افسر محکمہ مالیات میں آکر زبانی مدعا بیان کرتے۔ تجویز پر باہم غور ہوتا۔ دو سطری فیصلہ پر سب دستخط کرتے اور وہیں بیٹھے ہوئے جناب سبزواری اکاؤنٹنٹ جنرل مغربی پاکستان ایک چیک بناکر محکمہ سے آنے والے افسروں کے حوالےکردیتے۔ پختہ مورچوں کے لیے سیمنٹ اور سریا اور عارضی مورچوں کے لیے ریت کی بوریاں اور کدال خریدنے کی زبانی تجویز موصول ہونے اور چیک جاری کرنے میں کل 15 منٹ لگے تھے۔ وہ جنگ بھی کیا جنگ تھی۔ ہرفرد ایک فوج تھا، ہر ذرہ خاک ایک مورچہ تھا، بی آربی کی نہر کا ہر قطرہ ایک سمندر تھا۔‘ (بحوالہ: لوحِ ایام، مختار مسعود)
1965 کی ولولہ انگیز جنگ میں زخمی فوجیوں کے علاج پر معمور بریگیڈئیر (ریٹائرڈ) نصرت جہاں سلیم نے آئی ایس پی آر کے شمارے میں لکھا ہے کہ جنگ کے دوسرے روز ایک لمبا تڑنگا فوجی اسٹریچر پر لایا گیا جو اپنی نحیف آواز میں بڑبڑا رہا تھا کہ اس نے ماں سے سینے پر گولی کھانے کا وعدہ کیا تھا لیکن خود ڈاکٹر یہ جاننے سے قاصر تھے کہ اسے گولی کہاں لگی ہے۔ اس کی سانس اکھڑ رہی تھی اور بلڈ پریشر گرتا جارہا تھا۔ جب ٹانگ کا زخم کھولا گیا تو وہاں سے گولی کا ایک سوراخ جلد کو چیرتا ہوا پیٹ کی جانب جاتا معلوم ہوا۔ پھر یکایک معلوم ہوا کہ گولی اس کی خواہش کے مطابق عین اس کے سینے پر لگی ہے۔ اس تصدیق کے بعد اس فوجی نے آخری سانس لیا اور شہید ہوگیا۔
نصرت جہاں کے مطابق جب خون کے عطیات کی اپیل کی گئی تو ایک شہر اُمڈ آیا اور سب کی خواہش تھی کہ فوجیوں کو اسی کا خون لگایا جائے۔ خون کی اشد ضرورت تھی کیونکہ گہرے زخم اہم رگوں کو مجروح کررہے تھے اور زخمیوں کی لگاتار آمد سے اسپتال کا پورا فرش لہو کی سرخ چادر میں چُھپ گیا تھا۔ ان کے مطابق زخموں سے چور ہوکر شہید ہونے والے اکثر فوجی آخری دم تک پرسکون رہے۔ وہ اللہ سے مدد مانگتے اور پاکستان کی سلامتی کے لیے دعا کرتے تھے۔
1965 کی جنگی تاریخ ان جیسے کٸی واقعات سے بھری پڑی ہے۔ اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ اس وقت پاکستانی قوم متحد تھی۔ جذبہ حب الوطنی عروج پر تھا مقصد (دفاع وطن) واضح اور نگاہوں کے سامنے تھا۔ قوم اپنے محبوب قاٸداعظم کے دٸیے گٸے سبق ایمان، اتحاد اور تنظیم کے عین مطابق عمل پیرا تھی اور
وہ اپنی جغرافیاٸی سرحدوں کی حفاظت کرنے میں چوکس تھی۔
6 ستمبر 1965 کی مانند بزدل، مکار اور عیار دشمن رات کے اندھیرے میں ایک بار پھر جنگ چھیڑے بیٹھا ہے اس مرتبہ ہدف جغرافیاٸی نہیں نظریاتی سرحدیں ہیں۔
نظریاتی سرحدیں مار گراٸی جاٸیں تو جغرافیاٸی سرحدوں پر قابو پانا کچھ مشکل نہیں رہتا۔
اس وقت ہمیں من حیث القوم 1965 والی روح اپنے اندر جگانے کی اشد ضرورت ہے بصورت دیگر اللہ نہ کرے کہ ہماری نظریاتی سرحدیں دشمن فتح کر لے اور جغرافیاٸی سرحدیں بے معنی ہو کر رہ جاٸیں۔
اس تناظر میں یاد رکھیں پاکستان صرف ایک مملکت نہیں ایک نظریاتی مملکت ہے۔ دو قومی نظریہ اس مملکت کی بنیاد ہے۔
اس نظریے کے مطابق ہندوستان کا متحدہ قومیت کا نظریہ مسترد کیا گیا اور قطعیت کے ساتھ ہندوستان کے ہندوؤں اور مسلمانوں کو دو الگ اورکامل قومیں قراردیا گیا۔ انڈین نیشنل ازم پر یقین رکھنے والوں کے لیے دو قومی نظریہ صور اسرافیل بن کر گونجا جبکہ ہماری شاہراہ آزادی پر دو قومی نظریہ وہ پہلا سنگ میل ہے جسےمشعل راہ بنا کر مسلمانان ہند بالآخر 1947ء میں پاکستان کے قیام میں کامیاب ہوٸے۔
قیام پاکستان کا حصول خطہ ارضی کے حصول کے لیے نہیں تھا بلکہ یہ اسی علیحدہ تشخص کو دنیاٸے عالم کے سامنے لانے کی جدوجہد تھی۔
آج اگر ہم اس نظریاتی مملکت میں اسلامی معاشرت، معیشت، سیاست تعلیم وتعلم کے بجاٸے اقوام عالم کے ملغوبہ نظام کے پیچھے ہی چلے جاتے ہیں تو پھر ہم اپنی نظریاتی سرحدوں کی حفاظت میں ناکام ہیں۔
آج ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم اس دو قومی نظریے کو سمجھیں اور اس کے دفاع اور نفاذ کے لیے ایسے ہی ڈٹ جاٸیں جیسے 1965 میں اپنی جغرافیاٸی سرحدوں کی حفاظت کے لیے ڈٹ گٸے تھے۔
====================
اس یوم۔دفاع پر آپ کیا سوچ رہے ہیں؟کمنٹ باکس میں ضرور بتائیے