مقابلہ مضمون نویسی
پاکستان بچاو
بھوک و افلاس ،جہالت اور نشہ آور اشیاء کا استعمال ،کرپشن،ماردھاڑ،
چھیناچھپٹی،لوٹ مار کا بازار پورے ملک کو اپنی لپیٹ میں لیے ہوئے ہے ،روزنوں سے اب روشنیوں کا گزر نہیں ہوتا ،اب تاریکیاں اپنے پر پھیلائے روشنیوں کو نگل رہی ہیں۔
وہ دریچے جہاں قہقہوں کا راج تھا اب وہاں سسکیوں کی صدائیں بین ڈال رہی ہیں۔
،انکھوں کی بینائی مجبوریوں اور مزدوروں کے بار ڈھوتے ڈھوتے تر رہنے لگی،پلکوں کو خوابوں کی جگہ اداسیوں نے مسکن بنا رکھا تھا ،خون کی بو ،ہواوں میں رچ بس گئی تھی _
سیانے کہتے تھے ،اگر ناحق قتل ہو تو لال آندھی آیا کرتی ہے!وہ بچپن میں آسمان کی بدلتی رنگت دیکھ کر گھبرا جایا کرتا تھا ، اب سوشل میڈیا پہ روز بہ روز قتل و غارت گری دیکھتا دل دہل جاتا روح تڑپ جاتی مگر اب آسماں کا رنگ بدلتا نظر نہیں آتا ،ہاں اب آسماں دن میں کتنی بار رنگ بدلے،لال آندھی کتنی بار سر اٹھائے ،یہاں تو روز ناحق قتل ہوتے کبھی جسموں کے،کبھی عزتوں کے کبھی خوابوں کے!
اس کا دل ہولتا، اس کا کرب بڑھتا،وہ جانتا تھا پورے ملک کو بدلنا ،اس نظام کو بدلنا ،اس دستور کو بدلنا ،اس کے بس میں نہیں تھا مگر وہ ایک کوشش کرنا چاہتا تھا،وہ اپنے حصے کا دیا جلانا چاہتا تھا۔
اس نے سوشل میڈیا پر ایک گروپ تشکیل دیا، جس کو پاکستان بچاو کا عنوان دیا ،دیکھتے ہی دیکھتے اس کے گروپ میں ہزاروں لوگ ایڈ ہونے لگے،جو ملکی حالات سے دل برداشتہ تھے،جو روز روز کے حالات سے پریشان تھے،وہ سب ایک دوسرے سے اپنے دکھ کہنے لگے ،جو تعلیم سے منسلک تھے وہ اپنے پیشے کے ذریعے اپنے وطن کے نونہالوں کو پاکستان بچاو کے گر سکھانے لگے جو تاجر تھے وہ نا جائز منافع خوری سے پرہیز کرنے لگے، گویا اس گروپ کا ہر فرد اپنے حصے کا دیا جلانے لگا، جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ، بہت حد تک لوگ اپنے مفادات سے ہٹ کر پاکستان بچاو کو اولین ترجیح دینے لگے ۔وہ اور اس کے ساتھی لوگوں کے مسائل سننے لگے، درد کے ماروں کو کیا چاہیے تھا اک سہارا ، اک کندھا جس پر سر رکھ کر وہ رو سکیں ، دل کا بوجھ ہلکا کر سکیں، وہ کہتے ہیں ناں کہ بھوک تہذیب کے آداب بھلا دیتی ہے ، اور بھوکے پیٹ کو کیا لگے ، علم کی روشنی کیا ہے ؟ جب نقاہت سے آنکھیں دھندلی ہوں، اس نے ٹیم کے ساتھ مل کر عزم کیا ، جہاں تک ہو سکتا وہ لوگ مختلف رفاحی اداروں کے ساتھ رابطہ کر کے وہ لوگوں کی مدد کرنے لگے۔
جب ذہن تعلیم سے آراستہ ہی نا ہوئے ہوں وہ کیا جانیں شعور کیا ہوتا، وطن سے محبت کیوں ضروری ہوتی ہے ، اب وہ لوگ علم کے اجالے بانٹ رہے تھے ۔
لوگ حالات سے گھبرا کر جب اپنے بچوں کو موت کی گھاٹ اتار رہے تھے ایسے میں اس نے ساتھیوں سے مل کر کئی مجبور والدین کے بچوں کو بے اولاد جوڑوں کی کفالت میں دیا ، تاکہ بے موت مارے نہ جائیں ۔
دیے سے دیا جلتا رہا اور تاریک گھر پر خوشیوں اور ام۔ کے قمقمے جگمگانے لگے ۔
سرکاری عمارتوں کی طرح ان کے دل میں وطن کا پرچم اور سر بلند رہنے لگا اور پاکستان بچاو مہم سے پاکستان مسکرانے لگا_________
نحل سعدی آرائیں
بدین