میں ہمیشہ اپنے آپ سے پوچھتا تھا
کل درخت اور پتھر کیوں بولیں گے، ہمیں دکھائیں گے کہ (یہو__دی) کہاں چھپے ہیں؟
اب مجھے لگتا ہے کہ یہ صرف لوگوں کی خاموشی کا معاوضہ ہے!!
(ایک فلس__طینی بھائی کے الفاظ)
آن الفاظ کے پیچھے درحقیقت انسانوں کی مصلحت میں چھپی خاموشیاں چھپی ہیں۔امن میں ڈوبی بزدلی چھپی ہے موت سے خوف زدی زندگی چھپی ہے
آج کھنڈر بنے غ زہ کے پتھر چیخ چیخ کر کہہ رہے ی ہو دی وں نے ہمارا کیا حال کیا ہے دنیا والو آ و نظارہ کرو ہمارے ہنستے بستے گھر کھنڈر بن چکے ہیں۔ہمارے بچے جنتوں کو پرواز کر چکے ہیں ان بچوں کو ہماری بزدلی کھا گی ہماری نسلوں کو ہماری مصلحتیں کھا گئیں۔
موت سے خوف زدہ جسموں سے یہی سوال ہے کہ کیا خاموشی تماشائی بننے سے آگ رک جائے گی؟تمہارے گھروں تک نہیں پہنچے گیں ؟یقینا ایسا نہیں ہوگا موت اونچے اونچے برجوں میں بھی پہنچ جائے گی جب ایک دن مر ہی جانا ہے تو پھر ڈر کیسا؟
دنیا والو!آج اگر مسجد اقصی جاتی ہے تو کل کو مسجد نبوی اور خانہ کعبہ کیونکر بچا پاو گے؟سوچو
اٹھو وگر حشر نہیں ہوگا پھر کبھی
پتھر کیوں بولیں کے؟