پاکستان آیک امید
آمنہ راجپوت
پاکستان میرے بزرگوں اور آباؤاجداد کی خوابوں کی سرزمین ہے۔ہمارے بزرگوں نے تحریک پاکستان میں بھرپور حصہ لیا تھا۔انہوں نے اپنی جان ، زمین و جائیداد صرف پاکستان کے لیے وقف کر دی، پاکستان ایک آزاد اسلامی مملکت کی حیثیت سے دنیا میں ابھرا۔پاکستان چونکہ ایک اسلامی ریاست بن کر سامنے آیا اس لیے اس کے وقار اور عزت کی حفاظت کرنا ہر پاکستانی پر فرض ہے ۔
سر زمین پاکستان اس لیے بھی عزیز ہے یہ پاک و ہند کے کروڑوں مسلمانوں کی آخری امید گاہ ہے۔پاکستان عالم اسلام کے لیے ایک مضبوط سہارا ہے۔
لیکن آج کا پاکستان جو قائد آعظم نے سوچا تھا بالکل بھی ایسا نہیں ہے۔آج کا پاکستان ہر شعبے میں مشکلات کا شکار ہے،پاکستان اس وقت سب سے بڑی معاشی کمزوری کے مسائل سے دو چار ہے،پاکستان کے ادارے اتنے زیادہ کمزور ہو چکے ہیں کہ وہ اپنے ادارے کے وسائل بھی پورے نہیں کر پا رہے اس وقت ہمارا ملک ڈیفالٹ کے دھارے پر کھڑا ہے،قرضے لے لے کے ملک کی معشیت کو دھکے لگائے جا رہے ہیں بھاری ٹیکس پہ قرضے لیے جا رہے ہیں،جو کہ ملک دن بدن اور معاشی کمزور ہوتا جا رہا ہے۔بیرونی قرضوں نے پاکستان کی معشیت کو تباہی کے دہانے رکھ دیا ہے، ملک میں ادارے کرپشن لوٹ مار اور غیر ذمہ دارانہ رویے کا شکار ہیں۔اس کا کوئی بھی پوچھنے والا نہیں۔ہر نئے انے والی حکومت وعدے کر کے پانچ سال گزار کے چلی جاتی ہے کوئی بھی اپنے مطلب کے بغیر ملک کے لیے کچھ نہیں سوچتا،اللہ کرے اس ملک کی بھاگ دوڑ ایسے لیڈروں میں دے جو علامہ اقبال اور قائد اعظم جیسی سوچ اور خواب رکھیں۔ اب آیک امید کے ساتھ رہ رہے ہیں کہ جلد ہی پاکستان ترقی یافتہ ملکوں میں شمار ہو گا۔
بلومبرگ رپورٹ کے مطابق 2024 میں پاکستان کی معیشت بحال ہونے کے راستے پر ہے،پاکستان کی معاشی بحالی میں کئی عوامل اہم کردار ادا کرتے ہیں ان میں سب سے پہلے سرفہرست آئی ایم ایف کا قرضہ پروگرام ہے،جس کا مقصد مالیاتی پالیسیوں کو مضبوط بنانا اور سماجی تحفظ کو فروغ دینا ہے۔ایک امید کی جا سکتی ہے پاکستان انشاءاللہ انے والے سالوں میں پاکستان ترقی کی راہ میں گامزن ہوگا پاکستان کی معشیت کو بہتر بنانے کے لیے ضروری ہے کہ اس میں قرضے لینے کی شرح کو کم کرنا ہے، پاکستانی معاشی حالت کو بہتر کرنے کے لیے کاشتکاری کے منصوبوں پر عمل کرنا ضروری ہے،اس سے خاطر خواہ فوائد حاصل ہوں گے،پاکستان کی معیشت کو کئی خطرات کا سامنا ہے جو اس کی ترقی کی راہ میں رکاوٹ بن سکتے ہیں۔
پاکستان کے لوگ جو کہ نچلے طبقے سے تعلق رکھتے ہیں،وہ جو اپنے لیے دو وقت کی روٹی کا انتظام نہیں کر پاتے،اس وقت وقت سربراہ کی طرف سے کوئی ایسے ریلیف کے انتظار میں ہیں جس سے ان کے گھر کے اخراجات برداشت کرنے میں مدد ملے ،ہمارے ملک میں ایسے گھرانے کئی تعداد میں ہیں جو مفلسی میں اپنی زندگی گزار رہے ہیں،ایسے لوگوں کا ذریعہ آمدن کچھ بھی نہیں ہے،نہ ان کے ہاتھ میں کوئی ہنر ہے اور نہ ان کے ہاتھ میں کوئی تعلیم،ایسے لوگوں کے لیے حکومت کو انتظام کرنا چاہیے ان کے لیے مختلف منصوبے ترتیب دیے جائیں تاکہ ہر بندہ اپنی روزی روٹی کا انتظام کر سکے،جب تک پاکستانی معشیت صحیح معنوں پہ ترقی نہیں کرے گی تب تک ملک کے حالات ایسے ہی رہیں گے اور غریب غریب سے غریب تر ہوتا جائے گا اور امیر امیر سے امیر تر ہوتا جائے گا مفلسی پھیل جائے گی اور گداگری عام ہوگی،کیونکہ پچھلے حالیہ سالوں میں ایسے لوگوں کو بھی جرائم میں ملوث پایا گیا ہے جو سفید پوش خاندان سے تعلق رکھتے تھے لیکن اپنی بچوں کی خاطر اپنے گھر کی خاطر اور ان کا پیٹ پالنے کی خاطر جرائم کرنے پر مجبور ہوئے،اس میں قصور کس کا ہے حالات کا یا ان لوگوں کا جو جرائم پیشہ بنے یا وقت حکومت کا جو ایسے منصوبے ترتیب نہیں دے پا رہی جس سے ہماری غریب عوام کو کوئی فائدہ حاصل ہو،اب بھی پاکستانی عوام اس امید پر زندہ ہے کہ انشاءاللہ ضرور ہمارے پاکستان میں ترقی کی راہیں ہموار ہوں گی غریبوں کے لیے نئے نئے راستے کھلیں گے اور ان کے لیے ہنر پروگرام شروع کیے جائیں گے جس کی وجہ سے غریب آدمی بھی اپنی روزی کا انتظام عزت سے کر پائے گا۔
جس کو بہتر کرنے کے لیے اور ان سے نمٹنے کے لیے انتظامات کرنے ضروری ہیں،حالیہ سروے کے مطابق ہر 10 میں سے چھ پاکستانی مستقبل سے پرامید ہیں۔
منتحب حکومت کے آنے کے بعد اب یہ امید کی جا رہی ہے کہ ملک میں ترقی ہو گی منگاہی پر کنٹرول کیا جاہےگا غریب لوگوں کا چولھا بھی جلے گا نوجوان نسل کے نوکری کے مواقع پیدا ہو گئے اور ملک میں تمام ادارے فعال ہوں گے۔ملک میں بے روزگاری کا خاتمہ ہو سکے گا نئے مواقع آئے گئے تو ہمارا ملک انشاءاللہ ترقی کی راہ میں گامزن ہوگا۔
پاکستان کیونکہ ایک نظریہ پر قائم کیا گیا،وہ نظریہ بہت مضبوط ہے اس کی تناظر میں یہ ایک ایسا وطن ہے جس نے نہ صرف ایک ایسے لوگوں کا وقار بلند کرنا ہے بلکہ پوری دنیا کے لیے کام کرنا ہے اور مثال بننا ہے اس طرح ہماری زمہ داری اور بھی بڑھ جاتی ہے۔
ملک میں خوشحالی آئے گی اور دنیا میں اپنا نام پیدا کرے گا۔جس امید سحر کی امید تھی، پاکستان ابھی تک اسی امید میں ہےجس کا خواب ہمارے بزرگوں نے دیکھا تھا جس کی تکمیل کے لیے لاکھوں قربانیاں دی تھی ابھی تک اس کے انتظار میں ہیں،ہم چاہتے ہیں جلد ہی ایسی نوید کی سحر دکھائی دے تاکہ آنے والی نسل ان مسائل سے دوچار نہ ہو جو ہمارے ستر سال کی خوشیوں اور کامیابیوں کو نگل گئیں ۔
ہم ابھی تک اسی سحر کی نوید میں ہیں وہ سحر جو کامیابی اور کامرانی کا سورج لے کر ائے۔