تلاوت و حفظ
ہماری میراث
ام محمد عبداللہ
بچے کون سے سکول میں داخل کرواٸے ہیں آپ نے؟
ابھی چند ماہ پہلے ہی انیسہ گاٶں سے اسلام آباد شفٹ ہوٸی تھی۔ اس کی پڑوسن ثاقبہ نے اس سے پوچھا جو اسے اپنے گھر ہونے والی گیٹ ٹو گیدر میں شرکت کی دعوت دینے کے لیے آٸی تھی۔
جی میں بچوں کو حفظ کروا رہی ہوں۔
کیا؟
عجیب سے تاثرات ثاقبہ کے چہرے پر ابھرے تھے جنہیں انیسہ نے بھی محسوس کیا۔
”آپ کے بچے دیکھنے میں تو اچھے خاصے ذہین اور ٹھیک ٹھاک لگتے ہیں پھر۔۔۔۔۔ ۔۔“ ثاقبہ نے تبصرہ ادھورا چھوڑتے ہوٸے اسے پارٹی میں آنے کی تاکید کی اور رخصت ہو گٸی۔
انیسہ کو اس بے ربط تبصرے کی سمجھ نہیں آٸی تھی بلکہ یوں کہیے اسے یہ تبصرہ بالکل بے ڈھنگا محسوس ہوا۔
بہر طور محلے داری کی بات تھی۔ ثاقبہ اور انیسہ کے گھر بالکل ساتھ ساتھ تھے۔ بقول ثاقبہ ہر ہفتے کسی ایک پڑوسن کے گھر پارٹی منعقد کی جاتی جس میں سب ہی خواتین شامل ہوتیں۔ کچھ گپ شپ کچھ کھانے پینے کا دور چلتا۔ سب کو ایک دوسرے سے آگاہی ہوتی اور خواتین کی تفریح ہو جاتی۔
انیسہ بھی مقررہ دن پر ثاقبہ کے گھر چلی آٸی۔ پارٹی میں قریبا آس پاس کے سب ہی گھروں کی خواتین جمع تھیں۔
خواتین کی گفتگو ٹی وی شوز، رنگ برنگے کھانوں اور برانڈڈ ملبوسات سے ہوتی ہوٸی بچوں کی پڑھاٸی تک آن پہنچی تھی۔
انیسہ کا اپنے بچوں کے حفظ سے متعلق بتانے پر ایک خاتون بڑی قطعیت سے گویا ہوٸیں۔
”اچھا! ہم مسلمان بھی عجیب قوم ہیں۔
اللہ پاک نے ایک کتاب اتاری قوانین کی۔اصول ضوابط کی کہ لو بھٸی اسے سمجھو اور عمل کرو۔
اور ہم بیٹھ گٸے اسے رٹنے اور رٹوانے پر۔
اپنی عقل سے سوچیے کیا کسی بھی ملک میں کوٸی بھی قانون کی کتاب رٹی جاتی ہے۔ اب ہمارے قاری حضرات عمل اور نفاذ تو دور کی بات، سمجھتے ہیں نہیں اور قرات اور تلاوت جھوم جھوم کر کر رہے ہیں۔
ارے بھٸی میں نے تو سوچ رکھا ہے جب بھی قرآن پاک سے متعلق سوچا ترجمے اور تفسیر کے ساتھ مکمل سمجھ بوجھ کے ساتھ بچوں کو قرآن پڑھواٶں گی۔ یہ طوطا مینا کی طرح رٹنا رٹانا نہیں۔“
عجیب نخوت بھرا انداز تھا محترمہ کا انیسہ تو گڑبڑا کر رہ گٸی۔
ان کی بات اسے عجیب تو لگ رہی تھی لیکن بظاہر ٹھیک بھی محسوس ہو رہی تھی۔
اسے اپنے بچوں کا بنا سمجھے قرآن حفظ کرنے کا دفاع کرنا بھی نہیں آیا اور وہ بجھے دل کے ساتھ گھر واپس آ گٸی۔
اس کا کسی کام میں دل نہیں لگ رہا تھا۔
حفظ اور قرات سے متعلق دل میں شک سا آ گیا۔
ویسے یہ آپ کو کیا سوجھی بچوں کو حفظ میں ڈال دیا؟ چند ہی دن میں ذہن میں پنپتی الجھن لبوں تک آگٸی اور وہ اپنے شوہر آرش سے پوچھ ہی بیٹھی۔
کیا مطلب؟
آرش کو اس کے سوال پر حیرت ہوٸی۔
مطلب یہ کہ تلاوت اور حفظ کا کیا فاٸدہ؟
جب کہ بچوں کو اس کا مطلب اور معنی تو پتا ہی نہیں۔
بھٸی یہ نسخہ ہدایت ہے۔ اس کو سمجھ کر انسان پڑھے۔ اس پر عمل کرے تو فاٸدہ ہو گا۔ اب صرف اس طرح یاد کرنے سے کیا حاصل ہو رہا بھلا؟
” تم سے یہ سب کس نے کہا؟“ آرش انیسہ کی بات سن کر ٹھٹھک گیا تھا۔
ثاقبہ کی پارٹی میں ایک خاتون کہہ رہی تھیں۔
” ٹھیک ہی تو ہے کہہ رہی تھیں۔ اب ڈاکٹر نے دوا دی کھا لو۔ ہم دواٸی کا نام یاد کرنے لگ گٸے۔ کیا فاٸدہ ہو گا اس سے بتاٸیے ذرا۔“ انیسہ نے اپنے تٸیں زبردست دلیل کے ساتھ آرش کو قاٸل کرنا چاہا۔
آرش نے سختی سے ہونٹ بھینچے اسے خطرے کی گھنٹی بجتی سناٸی دے رہی تھی۔ ضروری تھا کہ وہ بروقت اس خطرے سے اپنی اہلیہ اور بچوں کو بچا لیتا۔
”یہاں بیٹھو انیسہ! اطمینان سے بات کریں۔
آرش نے انیسہ کا بازو پکڑ کر اسے اپنے سامنے بٹھا لیا۔
”یہ جو باتیں تم کر رہی ہو۔ یہ اتنی سادہ نہیں ہیں۔
یہ کفر کے ایوانوں میں باقاعدہ مرتب ہوتی اور عامتہ المسلمین میں پھیلاٸی جاتی ہیں۔“
انیسہ نے حیرت سے آرش کی جانب دیکھا۔
”اب ہم مسلمان اپنے محور سے اتنے دور جا چکے ہیں کہ اپنی اساس کا دفاع کر نہیں سکتے اور بنا پتوار کی کشتی کے ڈولنے لگتے ہیں۔“
انیسہ کو آرش کی بات سمجھ نہیں آ رہی تھی۔
جب اس خاتون نے حفظ اور تلاوت پر اعتراض کیا تو تمہیں اسے بتانا چاہیے تھا۔
” کہ آپ کی باتیں تو بجز شیطانی دھوکے اور فریب کے کچھ اور نہیں۔“
مگر آرش
انیسہ نے کچھ کہنا چاہا
” نہیں انیسہ! غور سے سنو!
حضور اقدس حضرت محمد ﷺ کو جن مقاصد کے لیے بھیجا گیا، قرآن کریم نے ان کو متعدد مقامات پر بیان فرمایا ہے ان مقاصد میں دوچیزوں کو علیحدہ علیحدہ ذکر فرمایا۔ ایک طرف فرمایا
یتلو علیھم آیاتہ
اور دوسری طرف فرمایا و یعلمھم الکتاب والحکمة
یعنی آپ ﷺ اس لیے تشریف لاٸے کہ کتاب اللہ کی آیات لوگوں کے سامنے تلاوت کریں۔ لہذا تلاوت کرنا ایک مستقل مقصد ہے اور ایک مستقل نیکی اور اجر کا کام ہے۔ چاہے سمجھ کر تلاوت کرے یا بےسمجھے تلاوت کرے۔ اور یہ تلاوت حضور اقدس ﷺ کی بعثت کے مقاصد میں سے ایک مقصد ہے۔ جس کو سب سے پہلے ذکر فرمایا۔
یتلو علیھم آیاتہ
اور قرآن کریم کی تلاوت ایسی بے وقعت چیز نہیں کہ جس طرح چاہا تلاوت کر لیا بلکہ نبی کریم ﷺ نے اپنے صحابہ کرام ؓ کو باقاعدہ تلاوت کرنے کا سلیقہ سکھایا اور اس کی تعلیم دی کہ کس لفظ کو کس طرح ادا کرنا ہے۔ کس طرح زبان سے ادا کرنا ہے۔ اس کی بنیاد پر دو مستقل علوم وجود میں آٸے جس کی نظیر دنیا کی کسی قوم میں نہیں ہے، ایک علم تجوید اور دوسرا علم قرات۔
بہرحال تلاوت خود ایک مقصد ہے اور یہ کہنا کہ بنا سمجھے صرف الفاظ کو پڑھنے سے کیا حاصل ہے شیطان کی طرف سے دھوکہ اور فریب ہے۔
یاد رکھو انیسہ!
جب تک کسی شخص کو قرآن کریم بغیر سمجھے پڑھنا نہ آیا تو وہ شخص دوسری منزل پر قدم رکھ ہی نہیں سکتا۔ قرآن کریم سمجھے بغیر پڑھنا پہلی سیڑھی ہے۔ اس سیڑھی کو پار کرنے کے بعد دوسری سیڑھی کا نمبر آتا ہے۔ اگر کسی شخص کو پہلی سیڑھی پار کرنے کی توفیق نہ ہوٸی تو وہ دوسری سیڑھی تک کیسے پہنچے گا؟“
”واقعی اس سب کے متعلق تو میں نے غور ہی نہیں کیا۔“ انیسہ نے شرمندگی سے کہا۔
” اور سنو انیسہ! سرکار دو عالم حضور ﷺ نے بیان فرمایا یہ قرآن ایسا نسخہ شفا ہے کہ جو اس کو سمجھ کر اس پر عمل کرے اس کے لیے تو باعث شفا ہے ہی ، لیکن اگر کوٸی شخص محض اس کی تلاوت کیا کرے، بغیر سمجھے بھی تو اس پر بھی اللہ تبارک تعالی نے اتنی نیکیاں لکھی ہیں کہ ایک الم کے پڑھنے پر تیس نیکیوں کا اضافہ ہو جاتا ہے۔“
آرش نے بات مکمل کر کے انیسہ کی جانب دیکھا۔
” جی ہاں! یہ حدیث مبارکہ تو میں نے پڑھ رکھی ہے۔“ انیسہ نے کہا۔
” پھر بیگم صاحبہ! آٸندہ حفظ و تلاوت سے متعلق کسی وسوسے اور شک کو دل میں جگہ نہیں دینی۔“
”جی بالکل“ انیسہ نےاثبات میں سر ہلایا۔
”اللہ نے چاہا تو بچوں کو ترجمہ تفسیر بھی پڑھاٸیں گے۔ قرآن پاک کے احکامات پر خود عمل کر کے انہیں بھی اس کی ترغیب دلاٸیں گے۔
اور عصری تعلیم و ہنر میں بھی انہیں آگے بڑھاٸیں گے۔“ روشن مقصد اور واضح ذہن کے ساتھ آرش نے کہا تو انیسہ نے بھی پختہ ارادے کے ساتھ
ان شاءاللہ کہا۔
تلاوت و حفظ ہماری میراث