خود سے خودشناسی تک
افسانہ:روبینہ شاہین
سردیوں کی آمد تھی، فضا میں ہلکی ہلکی خنکی تھی اور درختوں کے پتے آہستہ آہستہ زمین پر گر رہے تھے۔ یہ بدلتا موسم فاطمہ کے دل کی حالت کا عکاس تھا۔ اُس دن کالج سے واپسی پر اس کا دل بہت بوجھل تھا۔ اُس کی کلاس فیلو، صبا، کے ساتھ پیش آنے والا واقعہ اسے جھنجوڑ گیا تھا۔ صبا کا ریپ اُس کے کالج کا سکینڈل بن گیا تھا، اور ہر طرف چہ مگوئیاں ہو رہی تھیں۔ فاطمہ کے دل میں بے شمار سوالات اُبھرے۔
کالج میں اکثر یہ بحث ہوتی تھی کہ لباس کی کوئی خاص اہمیت نہیں، اصل چیز نیت اور آنکھوں کی حفاظت ہے۔ فاطمہ بھی کبھی کبھی اسی نظریے کو درست مانتی تھی، مگر اب صبا کے ساتھ ہوئے ظلم نے اس کی سوچ کو ہلا دیا تھا۔ اُس رات جب وہ سوئی تو نیند میں بھی اس کے ذہن میں یہ سوالات گھومتے رہے۔
صبح کا وقت آیا، لیکن وہ رات بھر ٹھیک سے سو نہ سکی۔ بوجھل دل اور بھاری آنکھوں کے ساتھ وہ بستر سے اٹھی اور تیار ہونے کے لیے اپنی وارڈروب کھولی۔ جیسے ہی اُس نے الماری کے اندر نظر ڈالی، ایک جھٹکے میں اسے اپنے سوالات کا جواب مل گیا۔ آدھے سے زیادہ کپڑے ویسٹرن تھے—ٹائٹ جینز، شارٹس، اور ایسے لباس جو مغربی فیشن کے زیر اثر تھے۔ جو چند مشرقی کپڑے تھے، وہ بھی اتنے فٹ کہ انہیں پہن کر آرام سے چلنا پھرنا مشکل ہوتا۔
فاطمہ کی آنکھوں میں جیسے ایک نیا شعور اُبھر آیا۔ اسے احساس ہوا کہ مسئلہ صرف نیت اور آنکھوں کی حفاظت تک محدود نہیں۔ صبا نے کبھی اپنی نیت خراب نہیں کی تھی، نہ ہی وہ کسی پر بری نظر ڈالتی تھی، مگر پھر بھی اُس کے ساتھ جو کچھ ہوا، اس نے فاطمہ کو یہ سوچنے پر مجبور کر دیا کہ شاید کچھ اور بھی ہے جو وہ نظرانداز کر رہی تھی۔
اس لمحے میں فاطمہ کو سمجھ آگیا کہ جو چیز وہ اپنی زندگی سے ‘مسنگ’ سمجھتی تھی، وہ لباس تھا۔ اس کے ساتھ ساتھ اس نے یہ بھی جانا کہ ہماری روایات میں لباس کی اہمیت محض اتفاقی نہیں تھی، بلکہ اس میں گہری حکمت موجود تھی۔ فاطمہ نے محسوس کیا کہ اس نے بھی اپنی زندگی میں جدید تہذیب کے آگے ہتھیار ڈال دیے تھے۔ اس نے سوچا کہ ہم کہتے ضرور ہیں کہ نیت اور دل کی صفائی اہم ہے، مگر عمل کا بھی اپنا مقام ہوتا ہے۔
نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:
“جو عورت خوشبو لگا کر نکلے، اس کی نماز نہیں ہوتی، جب تک کہ وہ واپس نہ ہو جائے۔”** (ابن ماجہ، کتاب الطہارۃ، حدیث 4040)
جو عورت بے پردہ باہر نکلے، اس کی نماز نہیں ہوتی۔” (ابن ماجہ، کتاب الصلاۃ، حدیث 651)
فاطمہ کو یہ باتیں سوچتے ہوئے یہ احساس ہوا کہ اگر خوشبو لگانا زنا کے زمرے میں آتا ہے تو میک اپ کرنا اور ننگے لباس پہننا بھی اسی زمرے میں شامل ہو سکتا ہے۔ یہ ایک سنگین مسئلہ ہے جو صرف ظاہری سجاوٹ تک محدود نہیں، بلکہ اس کے اثرات معاشرتی ساکھ اور خود اعتمادی پر بھی پڑتے ہیں۔
اُس نے آج کے بعد فیصلہ کر لیا کہ وہ نہ صرف اپنی نیت بلکہ اپنے لباس اور کردار کو بھی اس تعلیمات کے مطابق ڈھالے گی جنہیں اس کی ماں، پھوپھو اور خالہ نے ہمیشہ اپنایا تھا۔ اس کے دل میں واضح ہو گیا تھا کہ آنکھوں اور نیت کی حفاظت کے ساتھ ساتھ، لباس اور جسم کی بھی حفاظت ضروری ہے۔
فاطمہ نے وارڈروب بند کی اور آئینے کے سامنے کھڑی ہو کر ایک آخری بار خود کو دیکھا۔ آج وہ خود کو ایک نئے انداز میں دیکھ رہی تھی، ایک ایسی لڑکی کے طور پر جو نہ صرف اپنی نیت بلکہ اپنی ظاہری حالت پر بھی کنٹرول حاصل کر چکی تھی۔
خود سے خودشناسی تک کا یہ سفر آپ کو کیسا لگا ؟کمنٹ میں ضرور بتائیے