30
تحریر شئیر کریں

“موتی کا سفر”

ایک چھوٹے سے گاؤں میں، جہاں سورج کی کرنیں سبز کھیتوں کو جگاتی تھیں، ایک لڑکا رہتا تھا جس کا نام ریان تھا۔ ریان ایک عام سا لڑکا تھا، مٹی کی طرح سادہ، لیکن اس کے دل میں کچھ خاص تھا۔ اسے ہمیشہ سے ایک عجیب سی طلب رہتی کہ وہ کچھ ایسا بنے جو عام نہ ہو، جو قیمتی ہو، جو انمول ہو۔

ریان کے گاؤں میں ایک چھوٹی سی مسجد تھی، جہاں ایک بوڑھے حافظ صاحب لوگوں کو قرآن پڑھایا کرتے تھے۔ ایک دن ریان مسجد گیا اور حافظ صاحب سے کہا،
“حافظ صاحب! مجھے موتی بننا ہے۔”

حافظ صاحب مسکرائے اور بولے،
“موتی بننے کے لیے صبر چاہیے، خلوص چاہیے اور قرآن کا دامن تھامنا پڑے گا۔”

ریان حیران ہوا،
“قرآن؟ یہ تو صرف ایک کتاب ہے۔”

حافظ صاحب نے نرمی سے قرآن کھولا اور ایک آیت کی تلاوت کی،
*”وَنُنَزِّلُ مِنَ الْقُرْآنِ مَا هُوَ شِفَاءٌ وَرَحْمَةٌ لِلْمُؤْمِنِينَ”*
پھر بولے،
“یہ کتاب مٹی کے ذرے کو موتی بنا دیتی ہے، لیکن شرط یہ ہے کہ اس کے خول میں داخل ہو جاؤ، جیسے سیپ اپنے اندر ذرہ چھپا لیتا ہے۔”

ریان نے اس دن سے قرآن پڑھنا شروع کیا۔ پہلے دن وہ صرف الفاظ پڑھ سکا، دوسرے دن ان کے معانی پر غور کیا، اور تیسرے دن اس کے دل میں کچھ عجیب سا سکون اترا۔ وہ ہر روز حافظ صاحب کے پاس جاتا، قرآن سے باتیں کرتا اور اس سے دعا کرتا،
“اے قرآن! مجھے موتی بنا دے۔”

کئی سال گزر گئے۔ ریان اب وہ عام لڑکا نہیں رہا تھا۔ اس کے گاؤں کے لوگ اسے عزت کی نگاہ سے دیکھتے تھے۔ جب وہ بات کرتا تو لوگ خاموشی سے سنتے، جب وہ دعا کرتا تو لوگ آمین کہتے۔ وہ مٹی کا ذرہ جو کبھی گمنام تھا، اب ایک روشن موتی بن چکا تھا۔

### **ایک سوال**
ایک دن، مسجد میں قرآن کی تعلیم کے بعد ایک نوجوان نے ریان سے سوال کیا،
“ریان بھائی! آپ نے قرآن سے یہ مقام کیسے پایا؟ ہم بھی یہ سکون اور عظمت حاصل کرنا چاہتے ہیں۔”

ریان نے مسکرا کر قرآن کی طرف دیکھا اور کہا،
“یہ سفر اسی دن شروع ہوا جب میں نے قرآن سے ایک بات کہنا شروع کی۔”

نوجوان نے حیران ہو کر پوچھا،
“کیا بات؟”

ریان نے کہا،
“میں قرآن کے سامنے بیٹھ کر کہتا، اے قرآن! میں مٹی کا ذرہ ہوں، تیرے اندر جا کر موتی بننا چاہتا ہوں۔ اصل والا موتی، یعنی کامل مسلمان۔ جیسے سیپ کے اندر مٹی کا ذرہ چھپ کر موتی بنتا ہے، میں بھی تیرے خول میں رہ کر اپنی تربیت کرنا چاہتا ہوں۔

اے قرآن! مجھے اپنے اندر چھپا لے، میری اصلاح کر، میرے اندر خیر جگا دے اور شر مٹا دے۔ مجھے دنیا کو دیکھنے کا نیا زاویہ دے اور زندگی کی اصل قیمت سمجھا دے۔

اے قرآن! میری روح کو اللہ کی محبت کی چمک دے، میرے جذبوں کو عروج دے، مجھے زندگی کے ہر قدم پر صحیح فیصلہ کرنے کا ہنر دے، اور مجھے اپنے بغیر نہ چھوڑ جب تک میں موتی نہ بن جاؤں۔”

ریان نے توقف کے بعد کہا،
“جب آپ قرآن سے اس طرح مخاطب ہوتے ہیں اور اس کی رہنمائی پر عمل کرتے ہیں، تو آپ صرف انسان نہیں رہتے، آپ زمین پر اللہ کا ایک قیمتی موتی بن جاتے ہیں۔”

یہ سن کر نوجوان کی آنکھوں میں چمک آ گئی۔ اس نے قرآن کو تھامتے ہوئے دل میں ارادہ کیا کہ وہ بھی مٹی کے ذرے سے ایک قیمتی موتی بنے گا۔
*”اے اللہ! ہمیں قرآن کا تیار کردہ موتی بنا دے۔”* آمین۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں